1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماء طارق/
  4. پاکستان کے ستر سالوں کا تجزیہ

پاکستان کے ستر سالوں کا تجزیہ

پاکستان اللہ عزوجل کی مہربانی سے 14 اگست1947 کو دنیا کے نقشے پر ابھرا، جس کے پیچھے بے شمار لوگوں کی قربانیاں کارفرما ہیں۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو دوقومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جنہیں ترقی کی راہ میں ہر لمحہ چیلنجز کا سامنا رہتا ہے خواہ یہ اندرونی ہوں یا بیرونی۔ ان ستر سالوں میں پاکستان مختلف ادوار سے گزرا۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں۔ مارشل لاء بھی لگایا گیا مشرقی پاکستان بھی ہم سے جداہوا۔ پاکستان خطے کا ساتواں ایٹمی قوت رکھنے والا ملک بنا۔ آزادی کے اس سفر میں ہم بہت سے بحرانوں کا شکار رہے۔ عدالتی نظام پر حکمران طبقے کی اجاداری رہی جس کی وجہ سے انصاف بکنے لگا۔ پچھلے پانچ دس سالوں میں اس ضمن میں کچھ اقدامات کئے گئے جس نے عام آدمی کی عدالت تک رسائی کو آسان کیا مگر آج بھی عام انسان انصاف کی خاطر بھٹک رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک بل بھی پاس کیا مگر آج بھی کھلے عام انسانیت کی تذلیل جاری ہے۔ تعلیم حکمرانوں کی کبھی بھی پہلی ترجیح نہیں رہی اس کےلیے سرمایے کی تقسیم بھی ضرورت سے کم ہے، پچھلے بیس پچیس سالوں میں شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ شرح خواندگی% 57 ہے۔ تعلیمی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے موجودہ حکومت نے تعلیمی بجٹ میں بھی اضافہ کیا ہے۔ مشرف دور میں سرکاری سکولوں میں میٹرک تک تعلیم مفت کر دی جسے فروغ دیا جا رہا ہے مگر تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے اور اس کے ساتھ غیرنصابی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے کوششیں بھی جاری ہیں، کھیل کے میدان میں پاکستان نمایاں ہو رہا ہے حال ہی میں پاکستان ولڈ کپ بھی جیتا ہے مگر مزید کوششیں درکار ہیں۔ کیونکہ تعلیمی نظام نوجوان کو صرف نوکری کے حصول کے لیے تیار کرتا ہے اس کے اندر کے سائینسدان، سرمایہ کار، تاجر، کسان کو ختم کر رہا ہے ۔ پاکستان کی آبادی جو 22 کروڑ کے لگ بھگ ہے ملکی وسائل سے بہت زیادہ ہے۔ صحت کے میدان میں بھی بہت بہتری آئی لوگ اب ٹونے ٹوٹکے کی بجائے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ صحت کا معیار بھی بہتر ہو ا ہے سرکاری ہسپتالوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور وہاں بہترین ڈاکٹروں کے ساتھ مفت علاج کی سہولتیں بھی مہیا کی گئیں مگر یہاں بھی کرپشن نے اپنے ڈیرے جما رکھے، آئے دن ڈاکٹروں کی ہڑتال، ناقص ادویات، ڈاکٹروں کی عدم موجودگی نے عوام کو دلبرداشتہ کر دیا ہے، پرائیویٹ ہسپتالوں کی آسمان سے چھوتی ہوئی فیسوں کو عوام دینے پر مجبور ہے۔ اگرچہ پاکستان کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے مگر ابھی بھی بےروزگاری، مہنگائی، بنیادی ضرورتوں سے محرومی بہت زیادہ ہے جس سے خاص طور پر نچلا طبقہ پھنس کر رہ گیا ہے ان کا معیار زندگی بدتر ہو رہا ہے۔ 10 سے 15 لاکھ نوکریوں کی ضرورت ہے۔ بہت سے اداروں میں میرٹ کی بلکل پروا نہیں کی جاتی، جہاں صرف سفارش یارشوت چلتی ہے۔ اس طرح نااہل لوگ نظام کو سنبھال رہے ہیں اور قابل لوگوں کو جب ان کا حق نہیں ملتا تو وہ انتہاپسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر علامہ اقبال،

تیری بے عملی نے رکھ لی بےعلموں کی لاج

پچھلے نو دس سال میں دہشت گردی بہت بڑھ گئی، جس نے خطے کے امن و امان کو ختم کر دیا بہت سے لوگوں کی جانیں گئیں، کئی دردناک خادثات پیش آئے اور اس کے ساتھ اس نے پاکستان کی معیشت کو تباہ کر دیا لوگوں نے پاکستان آنا چھوڑ دیا، یہاں سرمایہ کاری کرنا چھوڑ دی۔ سیاحت، تجارت، کھیلوں کے میدان میں بھی بہت نقصان پہنچا۔

پاکستان کی عوام اور حکومت نے افواج پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کو زبردست شکست دی ہے، بہت سے جوانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی، کئی آپریشن کیے گئےجس میں آپریشن ضرب عضب کو خاص اہمیت حاصل ہے، جس سے خطے میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ دنیا پاکستان کی ان کوششوں کو سراہا رہی ہے، اب لوگ پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، حال ہی میں کچھ ٹورنامنٹ کا بھی انعقاد ہوا ہے جس کا مثبت نتیجہ سامنے آیا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری نے خطے میں خاص اہمیت حاصل کی ہے امید ہے اس سے ترقی کی راہ ہموار ہو سکے گی۔ پاکستان میں بےشمار وسائل ہیں مگر اس کو عمل میں لانے کے لئے وسائل نہیں جس کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا ہے توانائی کا بحران بڑھ رہا ہے۔

ملک کے کرنٹ اکاونٹ میں خسارہ بڑھ گیا ہے جو پانچ ارب 40 ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ درآمدات میں %2 اضافہ ہوا ہے اور برآمدات میں کمی ہوئی ہے جس سے زرمبادلہ پر بوجھ بڑھا ہے اور مہنگائی میں %3.4 اضافہ ہوا ہے جس نے عام آدمی کو مزید مشکلوں میں دھکیل دیا ہے۔ پاکستان، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں وقت کی ضرورتوں کے مطابق بہت پچھے ہے جس میں بہتری کی اشد ضرورت ہے اسی کے ذریعہ معیشت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ دفاع پاکستان کا بڑا مسئلہ رہا ہے اس لیے ملکی سرمایے کا بڑا حصہ اس کی نذرہو جاتا ہے۔ ان تمام مسائل کا سدباب کرنے کےلیے اداروں کو اپنا کام ایمانداری سے کام کرنا ہے اور میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری قبول کر نا ہو گی۔ جب تک ہر ایک فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے انفرادی کوشش نہیں کرے گا تب تک وہ منزل جس کی خاطر یہ ملک حاصل کیا گیا اس کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔

اسماء طارق

Asma Tariq

اسماء طارق کا تعلق شہیدوں کی سرزمین گجرات سے ہے۔ کیمیا کی بند لیب میں خود کو جابر بن حیان کے خاندان سے ثابت کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے لفظوں سے کھیلنے کا شوق ہے۔ شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر  کئی ویب سائٹ اور نیوز پیپر کے لیے  لکھتی   ہیں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں    ہیں۔