قصہ کچھ یوں ہے کہ قائداعظم کا ایک موکل آپ کے لیے ایک مقدمہ لایا، آپ نے مقدمہ کی ذمہ داری قبول کر کے پیروی شروع کر دی مگر عدالت نے فیصلہ آپ کے موکل کے خلاف دے دیا جو غیر متوقع تھا۔ آپ کو اس فیصلے کا بہت دکھ ہوا آپ نے موکل کو دوبارہ اپیل کا مشورہ دیا کیونکہ آپ کے مطابق فیصلہ قانون سے سراسر منافی تھا۔ آپ کو اپنے موکل سے بہت ہمدردی تھی آپ چاہتے تھے کہ اسے اس کا جائز حق مل جائے۔ ایپل کا فیصلہ اس کے حق میں ہو گیا تو موکل نے خوش ہو کر آپ کو اصل فیس سے دوگنا فیس دینا چاہی۔ آپ مسکرائے اور فیس لینے سے انکار کردیا۔ وجہ دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا کہ جب آپ مقدمہ ہار گئے تھے تو میں نے از راہ ہمدردی اپیل کا کہا تھا میرے ذہن میں فیس لینے کا کوئی خیال نہ تھا اب چونکہ آپ نے مقدمہ جیت لیا ہے لہٰذا میں اپنے ضمیر کو دھوکہ دے کر فیس نہیں لے سکتا۔ جس ذہن سے آپ کو مشورہ دیا تھا اسی پر قائم ہوں۔
آپ نے ہمارے لیے ایسے ایسے اعلی کردار کے نمونے چھوڑے ہیں جن سے راہنمائی حاصل کر کے زندگیاں سنواری جا سکتی ہیں۔ آپ 25 دسمبر کو پیدا ہوئے اور پھر دھرتی کے اس سپوت نے ایسی بامقصد زندگی گزاری جس نے دھرتی کی تقدیر بدل دی۔ جہاں ایک طرف اقبال نے اپنی انقلابی شاعری سے قوم کو جھنجوڑا وہاں آپ نے اپنی سیاسی بصیرت، فہم و فراست اور ولولہ انگیز قیادت کے ذریعے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ یوں پاکستان کا قیام جسے سب دیوانے کا خواب سمجھتے تھے حقیقت بنا۔ آپ نے قوم کو بہترین قیادت سے نوازا جس وجہ سے تخلیق پاکستان ممکن ہوئی۔ آپ بےمثال حوصلہ اور ہمت کے حامل تھے جسے زیر کرنا کسی سپوت کیلئے ممکن نہ تھا۔ آپ کی نگاہ بلند حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانے میں ماہر تھی اور پھر اس کے مطابق تدابیر کرنا آپ کا خاصہ تھا۔ آپ ایک پریکٹیکل انسان تھے جو الفاظ سے زیادہ عمل کو ترجیح دیتے تھے آپ نے عمل کے ذریعے اپنے کردار کو ثابت کیا آپ کے اعلی کردار کے نمونے جگہ جگہ ملتے ہیں۔ آپ پاکستان کے لیے بہت کچھ کرنے کے خواہش مند تھے مگر بیماری کی وجہ وہ ایسے کر نہ سکے اور 11 ستمبر 1948ء کو یہ عظیم رہنما ہم سے جدا ہو گئے۔
جیسا کہ شیکسپیئر کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ پیدائشی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ اپنی جدوجہد اور کارناموں کی وجہ سے عظمت کی بلندیاں پاتے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا شمار بھی ان عظیم لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنی جدوجہد اور مسلسل محنت کی بدولت عظمت کے میناروں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ آپ کی باوقار شخصیت میں قوم کیلئے کامیاب زندگی کا پیغام ہے جو انہیں کامیابی و کامرانی عطا کر سکتا ہے۔ آپ نے اتحاد، یقین اور تنظیم کا تین حرفی مکمل درس دیا آپ نے اپنی محنت سے ثابت کیا کہ محنت انسانی ترقی کے لئے اس طرح ضروری ہے جیسے زندہ رہنے کے لئے خوراک۔ آپ کے مطابق اتحاد قوت ملی کا دوسرا نام ہے اور آپ نے فرمایا کہ یقین اور جذبہ ایمانی نصب العین کی کامیابی کےلیے بہت ضروری ہے۔ اصول نظم و ضبط اور تنظیم اعمال و کردار کی صحیح راہیں طے کرکے ہی منزل مقصود تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ آپ کی نظر میں ہم آہنگی کو بہت اہمیت حاصل تھی آپ کے مطابق ہم آہنگی بلند فکر ونظر پیدا کرتی ہے اور ترقی و وسعت کی راہیں ہموار کرتی ہے۔ آپ نے جرات، استقلال اور عمل پیہم کو شعار بنا کر اس پر کاربند رہنے کا پیغام دیا۔
آپ کو نوجوان طلبا سے بہت محبت تھی، اسی لیے تو نوجوان مسلم طلبا نے قائد اعظم کے ولولہ انگیز پیغام کو اپناتے ہوئے تحریک پاکستان میں سر دھڑ کی بازی لگاکر تاریخ رقم کی۔ قائد اعظم نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یوں فرمایا ''نوجوان طلبا میرے قابل اعتماد کارکن ہیں۔ ''
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ نوجوان ہی ملک و قوم کے معمار ہیں مگر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ کون سے اصول ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر وہ ملک و قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں؟ قائدِ اعظم جب بھی مسلمانوں کو جذبہ قوت کو بیدار کرنے کے لیے مختلف مقامات پر قوم سے خطاب کرتے تھے تو نوجوان اُن سے یہی سوال کرتے تھے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ نومبر1939ء میں قائدِ اعظم نے تقریر نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "نوجوان پوچھتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی خدمت کس طرح کرسکتے ہیں۔ میرے نو جوان دوستو! ہمارا عمل ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی تنظیم کرلے تو یہ بھی ملک کی خدمت ہوگی۔ کیا ہر فرد کے عمل میں باقاعدگی اور تنظیم ہے؟ کیا ہر شخص مناسب وقت پر سوتا اور بیدار ہوتا ہے؟ کیا ہر شخص ٹریفک اصولوں کا خیال رکھتا ہے؟ اور سڑکوں پر کوڑا کرکٹ پھینکنے سے اجتناب کرتا ہے؟ کیا ہر ایک اپنا کام دیانت اور ذمہ داری سے کرتا ہے؟ کیا ہر شخص دوسرے کو ضرورت کے وقت اتنی امداد دیتا ہے جتنی وہ دے سکتا ہے؟ کیا ہر ایک برد بار اور متحمل ہے؟ یہ باتیں بظا ہر بے حد معمولی نظر آتی ہیں لیکن انہی میں تنظیم مضمر ہے۔ "
قائدِ اعظم محمد جناح کو نوجوانوں سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔ آپ اپنے ہر خطاب میں نوجوانوں کو کوئی نہ کوئی نصیحت یا پیغام ضرور دیتے تھے۔ نوجوان قائدِ اعظم کو مشعلِ راہ بناکر ملکی سلامتی و بقا اور نظریاتی و سیاسی استحکام کے لیے بہت بڑا اور اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
جیسا کہ قوم ایک مشینری کی مانند ہوتی ہے، اس میں ہر پرزے کی اپنی اپنی اہمیت ہے اور اس کی صحیح کارکردگی کا انحصار ان تمام پرزوں پر ہے جو اس میں کام کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ کی نظر میں ملک و قوم کا ہر فرد ایک اہم پرزہ ہے جسے اپنی اپنی جگہ پر پورے خلوص ہمت اور احساس سے کام کرنا چاہیے۔ آپ کی نظر میں فرد واحد کی بہت اہمیت حاصل ہے آپ نے انفرادی قوت کو مکمل طور پر بروئے کار لانا کا پیغام دیا۔ آپ کے مطابق فرد واحد اپنی تمام تر قوتوں کے استعمال کی وجہ سے بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم کس طرح ان تعلیمات کو عمل میں لا کر ان سے استفادہ حاصل کرتے ہیں اور کس طرح اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔