میں یونیورسٹی سے واپس آنے کے لیے بس میں بیٹھتی ہوں کہ جلدی گھر جا سکوں، پورا دن کام کرنے کی وجہ سے کافی تھک گئی تھی اب بس خواہش تھی کہ کسی طرح جلدی سے یہ آدھے گھنٹے کا سفر ختم ہو جائے اور میرا سٹاپ آ جائے اور میں پل بھر میں وہ پانچ منٹ کا فاصلہ طے کر کے گھر پہنچ جاوں مگر جیسے ہی سٹاپ پر اترتی ہوں تو نظر سامنے دیوار پر لگے اشتہار پر نظر پڑتی ہے جس نے جہاں دیوار کو بدنما بنایا ہوا تھا وہیں وہ اپنےآپ میں بھی بڑا بدنما تھا۔ ۔ حالانکہ یوں تو اشتہار لگانا منع ہے مگر ہم لوگ کب منع ہوتے ہیں اور خاص طور پر اس کام کو تو ہم لازمی ہی کرتے ہیں جس سے ہمیں منع کیا جاتا ہے۔ خیر چھوڑیں اس بات کو، چلیے اشتہار کے متعلق بات کرتے ہیں۔ ۔ ہاں تو میں کہہ تھی کہ وہ اشتہار انتہائی بد نما تھا جس کا مقصد معاشرے میں انتشار پھیلانے کے سوا کچھ نہ تھا۔ جو کسی کالی مائی کے کرامات کو چیخ چیخ کر بیان کر رہا تھا اور دیوار پر ظلم و ستم ڈھا رہا تھا جیسا کہ اس پر تحریر تھا کہ کالی مائی، کالے علم کی ماہر آپ کے سب کام صحیح کر دے گی، شوہر کو بیوی کا غلام، بیوی کو شوہر کے ماتحت، دشمنوں کا خاتمہ، من کی مرادیں پوری ہو جائیں گی، محبوب قدموں میں، اولاد نرینہ کا حصول، پسند کی شادی، مقبولیت کا حصول، امتحان میں کامیابی، کاروبار میں ترقی، سسرال میں راج، میکے میں حکومت مل جائے گی۔ ۔ یہ سب پڑھنے میں جہاں بہت دلچسپ وہیں انتہائی مضحکہ خیز بھی تھا کیونکہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر سارے مسائل ان کالی مائی بابوں کے ہاتھوں درست ہونے لگے تو پھر آج کوئی بھی پریشان نہ ہوتا۔ ۔ اب میں بھول ہی گئی تھی کہ مجھے پل بھر میں گھر میں جانا کیونکہ اب میرا سارا راستہ اسی چیز کے متعلق سوچنے میں گزر رہا تھا۔
جب حالات ناگوار ہوتے ہیں اور انسان کا کوئی کام نہیں ہو رہا ہوتا ہے تو اس پریشانی کے عالم میں لوگ اسے کہتے ہیں کہ ضرور یہ کسی کی طرف سے کوئی بندش ہے۔ یہ سب سن سن کر دن بدن انسان کا یقین ڈگمگانے لگتا ہے اور وہ اسی سوچ کی طرف مائل ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایسے مائی بابوں کو ڈھونڈنے لگ پڑتا ہے ویسے ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیوں کہ کوئی نہ کوئی ایسا ضرور موجود ہوتا ہے جو آپ کو ان کے پاس لے جانے کے لیے ہر وقت تیار بیٹھا ہوتا ہے اور ان کی باتوں میں آ کر لوگ تعویذ دھاگوں کا سہارا لینے لگ پڑتے ہیں اور اسی طرح کالے جادو تک بات پہنچ جاتی ہے اور انسان اپنا کام سیدھا کرنے کے لیے ہر الٹا سیدھا کام کرتا ہے اور وہ فقیر بابا مائی ایسے لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان کے سارے کام ان کی مرضی کے مطابق کر دیں گے اور انسان ان کے چنگل میں پھنستا چلا جاتا ہے اور ایسا پھنس جاتا ہے کہ پھر مکمل طور پر تباہ و برباد ہونے پر ہی سمجھ آتی ہے کہ وہ کیا کرتا رہا کچھ کو تو تب بھی نہیں آتی۔
میں نے آج تک اس کالے علم کی وجہ سے کسی کا گھر بستے نہیں دیکھا مگر ایسے لوگ کئی ہیں جن کی زندگیوں کو اس نے تباہ و برباد کر دیا اور اس سے کچھ حاصل ہوتے میں آج تک کسی کو نہیں دیکھا مگر لوگوں نے اس کی خاطر اپنا سب کچھ تباہ و برباد ضرور کیا ہے۔ کئی بچے بچیاں لوگوں کی باتوں میں آ کر اپنے یقین کو ڈگمگا بیٹھتے ہیں ایسے لوگوں کے ہاتھوں چڑھ جاتے جو صرف ان کی تباہی کا سبب بنتے ہیں اور وہ ساری زندگی اس چکر سے نکل نہیں پاتے ہیں یہاں تک کہ خود ختم ہو جاتے ہیں۔
جادو ٹونا ہمارے معاشرے میں عام ہوتا جا رہا ہے جو بہت خطرناک صورتحال کا پیش خیمہ ہے۔ اس کے چکر میں کئی گھر اجڑ جاتے ہیں، خاندان کے خاندان تباہ و برباد ہو جاتے ہیں مگر ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ ۔ ۔ خدا ہی اس لعنت سے بچائے۔ اور ویسے بھی ہمیں یہ تو سوچنا چاہیے کہ ایسے تمام کام جس میں دوسروں کا برا چاہ کر آپ اچھا کرنا چاہوں وہ صحیح کیسے ہو سکتا ہے چاہے اسے دم درود کے ذریعے آپ کرنا چاہو۔ ۔ غلط کام غلط ہی ہوتا ہے چاہے جتنا مرضی صحیح راستہ آپ اپناو اس کے لیے۔ ۔ اسی لئے تو اللہ نے اعمال کا دارومدار نیتوں پر رکھا ہے۔
لوگ کبھی اپنے مسائل کے حل کیلئے، کبھی اپنوں کے لیے، کبھی اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے ایسے لوگوں کے در پر جا کر بھیگ مانگتے ہیں، پیسے بھی تباہ کرتے ہیں اور خود کا بھی کوئی حال نہیں چھوڑتے مگر ملتا کچھ نہیں ہے۔ ۔ ہماری عورتیں خاص طور پر اس لعنت کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ کمزور یقین ہے اگر ہم اپنے کام جادو ٹونے کی بجائے اللہ پر بھروسہ رکھ کر خود کرنے کی کوشش کریں تو شاید بہتری آ بھی جائے۔ نہ جانے ہم خود کیوں اللہ سے نہیں مانگتے ایسے لوگوں کا سہارا کیوں ڈھونڈتے ہیں حالانکہ وہ تو ہر پل کہتا ہے مجھ سے مانگو۔ ۔ اس کے در پر وقت تو لگ سکتا ہے مگر مایوسی کبھی نہیں ملتی۔ انسان جادو ٹونے کے ذریعے تو ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا مگر خود کوشش کم ہی کرے گا اور اس میں پڑ کر وہ سب کچھ کہیں بھول ہی جاتا ہے شاید کچھ چیزیں کبھی اس کے حق میں ہو بھی جائیں، اس کالے جادو کے حصار میں آ کر بدل بھی جائیں مگر یہ سب عارضی ہوتا ہے ایسی چیزیں کبھی دائمی اثر نہیں رکھتیں۔ ان کی ایک مدت ہوتی ہے مدت ختم اثر ختم اور پھر اس جال میں پھنسنے والے کا انجام شروع ہو جاتا ہے اور وہ انتہائی اذیت ناک ہوتا ہے۔ برائی کسی بھی شکل میں کیوں نہ ہو اس سے کچھ بھلا نہیں ہو سکتا وہ آخر میں انسان کو تباہ و برباد کر ہی دیتی ہے۔