1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماء طارق/
  4. تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال

تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال

ہمارے پروفیسر اپنے ایک طالبعلم کی اکثر تعریف کرتے رہتے تھے مگر کچھ دنوں پہلے وہ اس کے ذکر پر افسردہ ہو گئے بتانے لگے کہ عرصے بعد پرسوں میری ملاقات فیضان سے ہوئی تو میں اس کو پہچان بھی نہیں پایا۔ میلے کچیلے کپڑے، پھٹی ہوئی چپل، گویا کہ کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ فیضان تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہےتو وہ کہنےلگاکہ مجھے نشے نے تباہ و برباد کردیا ہے۔ میں نے کہا کہ کیا مطلب؟ کہنے لگا کہ میں ہیروئن کا نشہ کرتا ہوں۔

یہ سن کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ یہ تو ایک نوجوان کی کہانی تھی مگر اس کے علاوہ ایسے ان گنت نوجوانوں کہانیاں ہمارے آس پاس موجود ہیں جن کو منشیات نے تباہ و برباد کر دیا ہے۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جو منشیات استعمال کی جاتی ہیں ان میں شراب، ہیروئن، چرس، افیون، بھنگ، کرسٹل کے علاوہ کیمیائی منشیات جیسے صمد بانڈ، نشہ آور ٹیکے اور سکون بخش ادویات شامل ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 76 لاکھ افراد منشیات استعمال کرتے ہیں جن میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین شامل ہیں۔

دنیا بھر میں بہت سے ممالک منشیات کے مسائل کا شکار ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ برائی سڑکوں سے نکل کر نہ صرف اب ہمارے تعلیمی اداروں تک رسائی پا چکی ہے بلکے ہماری تعلیمی جڑوں میں بھی سرایت کر گئی ہے جسکی وجہ سے نوجوان طالب علم طرح طرح کی منشیات کا شکار ہو کر اس کے عادی بن جاتے ہیں اور اپنی زندگی تباہ و برباد کر لیتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات ہیں جہاں پولیس نے کارروائی میں ایسے کئی گروہوں کو گرفتار کیا ہے جو تعلیمی اداروں میں منشیات فراہم کرتے تھے۔ یہ گروہ ملک کی جامعات میں طرح طرح کی منشیات سپلائی کرتے ہیں اور یہ گروہ کسی نہ کسی طریقے سے جامعات سے جڑے بھی ہونگے جس وجہ سے اکثر ان کی پہچان کرنا ممکن نہیں رہتا۔ عموما یہ لوگ ایسی سرگرمیوں میں طالبعلموں کو بھی شامل کر لیتے ہیں اور نہ صرف ان کی زندگیوں کو تباہ کرتے ہیں بلکے انہیں دوسروں کی بھی زندگی برباد کرنے پر اکساتے ہیں اور یوں یہ برائی انہی نوجوانوں کے ہاتھوں ہی پھیلتی جاتی ہے اور کئی اور نوجوانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور یوں یہ کالی بھیڑیں نقاب اوڑھے ہماری جڑیں کھوکھلی کرتی جا رہی ہیں اور ہم خاموش تماشائی بنے یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ افسوس کہ یہ بیماری بڑھتی ہی جارہی ہے مگر کسی کی اس طرف نظر ہی نہیں جاتی۔ اور سب سے بڑھ کر اس سے شرم اور ذلت کا کیا مقام ہو گا جب وہ ادارے جہاں انسان کو انسان بنایا جاتا ہے اسے کسی قابل بتایا جاتا ہے وہی اسے کسی قابل نہ چھوڑیں۔ جب وہاں انہیں شعور اور آگاہی ملنے کی بجائے انہیں اسے سلب کرنے والی منشیات ملے تو کیا وقار رہ جائے گا ان اداروں گا۔ تعلیمی ادارے یہاں تو ہسپتالوں میں بھی یہ گندگی پل رہی ہے جب زندگی دینے والے خود زندگی چھیننا شروع کر دیں تو وہاں انسانیت کے پاس شرمسار ہونے کا علاوہ کیا مقام رہ جائے گا مگر صد افسوس کہ ہم وہ شرم بھی محسوس نہیں کرتے اور اسی لیے تو ایسے لوگ دیدہ دلیری کے ساتھ ہماری ناک کے نیچے یہ سب کر رہے ہوتے ہیں اور ہمیں خبر نہیں ہوتی۔ ۔

اب ان عادی بچوں کو اس سب کے لئے پیسے بھی چاہیے مگر چونکہ اپنا کوئی وسیلہ معاش نہ ہونے کی وجہ یہ والدین پر ہی دپنڈنٹ ہوتے ہیں اب والدین سے تو انہیں صحیح طریقے سے اس کام کے لیے پیسے کسی صورت نہیں مل سکتے سو وہ جھوٹ بولیں گے، ہیرہ پھیری کریں گے حتی کہ ایسے بچے اپنے ہی چوری اور ڈاکے ڈالنا شروع کر دیں گے اور اس میں دوستوں کو بھی ملا لیں گے اور والدین تو تب خبر ہوتی جب وہ عادی بن چکے ہوتے ہیں۔ منشیات کسی ایک آدمی کی زندگی تباہ نہیں کرتی ہے بلکہ اس آدمی سے جڑے تمام لوگوں کی زندگیوں پر اپنا کالا سایہ چھوڑ جاتی ہے جو ان کی زندگیوں کو بھی اندھیر نگری بنا جاتا ہے۔ منشیات نسلوں کی نسلوں کو نگل جاتی ہے، یہ ہماری پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے مستقبل کا معمار جنہوں نے ملک کو ترقی کی اونچائیوں پر لے کر جانا ہے وہ خود ایک زوال کا شکار ہیں۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں، انہیں کسی ایسی ویسی کمپنی کا حصہ نہ بننے دیں، نظر رکھیں کہ وہ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور کیسے مشاغل رکھتے ہیں تاکہ اگر ایسی کوئی حرکت ملے تو وقت رہتے اس کا سدباب ہو سکے۔

افسوسناک بات تو یہ ہے ہماری یہ نسل منشیات کو فیشن سمجھتی ہے اور اسی فیشن کے چکر میں وہ اسکے نقصانات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اپنی زندگی اپنے ہاتھوں تباہ کر لیتے ہیں۔ نوجوانوں میں اس بات کا شعور دلانے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ منشیات در حقیقت کس تباہی کا نام ہے اور وہ انہیں کیا سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور اس کےلیے والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کی کاونسلنگ کریں انہیں بیٹھا کر بتائیں کہ یہ کیا بیماری ہے اور اس کے کیا نقصانات وقتا فوقتا ان سے ان کے متعلق بات چیت کرتے رہا کریں اور ان کے مشاغل پوچھتے رہیے۔ ایک سروے کے مطابق بچوں میں اس کا استعمال تنہائی کی وجہ سے بھی پایا جاتا ہے انہیں والدین کی طرف سے وقت نہیں ملتا جس کے نتیجے میں وہ ایسی سرگرمیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے کو سنگینی سے لے اور عوام کو روشناس کرنے کے اقدامات کرے اور تمام منشیات فروشوں کے خلاف سخت کاروائی کریں تاکہ ایسے لوگوں کا صفایا ہو سکے۔

اسماء طارق

Asma Tariq

اسماء طارق کا تعلق شہیدوں کی سرزمین گجرات سے ہے۔ کیمیا کی بند لیب میں خود کو جابر بن حیان کے خاندان سے ثابت کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے لفظوں سے کھیلنے کا شوق ہے۔ شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر  کئی ویب سائٹ اور نیوز پیپر کے لیے  لکھتی   ہیں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں    ہیں۔