ایلیٹ ٹریننگ سکول کے سامنے جہاں آج کل عباس پولیس لائن ہے وہاں بٹالین نمبر ایک کی گارد ہو ا کرتی تھی۔ اس گارد پہ ٹینٹ میں مقیم ہم چھ لوگ تھے۔ ایک نلکا، ایک ٹائر کا بنا ہوا ٹب، ٹب میں پڑا ڈیڑھ لیٹر کی پیپسی کی بوتل کاٹ کر بنایا گیا نہانے والا مگ۔ ایک کتا چار بندوقیں تین سرکاری صندوق ایک چار کلو گیس ولا سلنڈر، چار پانچ پلیٹیں، تین کپ، ایک سلور کا تسلہ اور ایک پلاسٹک کا جگ تین شیشے کے گلاس ایک پھٹی پرانی جائے نماز یہ اشیاء اس گارد کا کل اثاثہ تھے۔ نہ کوئی باتھ روم نہ نہانے کا انتظام نہ کھانے پکانے کا انتظام۔ رفع حاجت کو بھی ہم لگ بھگ آدھا کلومیٹر پیدل چل کر ایلیٹ سکول کے باتھ رومز استعمال کرنے جایا کرتے تھے۔ ہمارا تین وقت کا کھانا ایلیٹ ٹریننگ سکول کی میس پہ لگا ہوا تھا۔ ہر روز باری باری ہم میں سے ایک بندہ جاکر شاپر میں کھانا لے کر آتا اور ہم ربڑ پلانٹ کے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے۔ مقبول، سیف۔ ندیم میو، کاشف، میں اور آصف لاہوری اس گارد پہ تعینات تھے۔ گارد انچارج اکرم اے ایس آئی قریبی بھٹہ چوک کا رہائشی تھا۔ اکرم اے ایس آئی پراپرٹی کا کام کرتا تھا اس لیے کبھی کبھار ہی وہ گارد پہ آتا۔ سیف نمازی پرہیز گار متقی جوان تھا۔ اکثر جمعرات کو اس کی باری ہوتی یا نہ ہوتی سلور کا تسلہ اور روٹیوں والا شاپر اٹھا کر کڑکتی سخت دوپہر میں بھی کھانا لینے چل پڑتا۔ ہم سیف کی رضاکارانہ خدمت پر بہت خوش ہوا کرتے۔ آج بھی جمعرات تھی او ر دوپہر کا کھانا لینے جانے کا نمبر مقبول کا تھا۔ سیف نے جلدی جلدی شاپر اٹھایا تسلہ دھویا اور کھانا لینے چل پڑا۔ مقبول نے مجھے کہا یار بابا یہ ہر جمعرات کو ہی سیف کے اندر کا اچھا انسان کیوں جاگ اٹھتا ہے۔ کھانا لینے جانے کی باری میری تھی اور سیف کھانا لینے چلا گیا ہے۔ یار کوئی گڑبڑ ہے۔ چل ذرا اس کے پیچھے چلتے ہیں۔ ہم بھی چپلیں پہن کر سیف کے پیچھے پیچھے ہولیے۔ سیف میس پہ چلا گیا اور ہم دونوں ایلیٹ سکول کی کینٹین پہ بیٹھ گئے اور دھیان رکھا۔ تھوڑی دیر بعد سیف کھانا لے کر میس سے نکلا جیسے ہی اس نے واپسی کا راستہ لیا ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ ہمارے دلوں میں ایک شک تھا کہ سیف کا ہر جمعرات کھانا لینے جانا میس والوں کا جمعرات کو کٹا پکانا اور ہمارے حصے ایک ایک بوٹی بھی نہ آنا کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔ ہم سیف کے پیچھے پیچھے چلتے گئے ایلیٹ سکول کے گیٹ اور میس کے درمیان ایک مصنوعی جنگل آتا ہے۔ جنگل میں ایک ٹاور ہے جس پر ٹرینی ہیلی کرتے ہیں۔ ٹاور کے نیچے فرش لگا یا ہو ا ہے۔ جب سیف جنگل میں ٹاور کے نیچے پہنچا تو فرش پر بیٹھ گیا۔ روٹیوں والے شاپر سے ایک روٹی نکالی اور سالن والے تسلے کا ڈھکنا اٹھا کر سیف نے صرف اور صرف بوٹیاں کھائیں۔ ہم بھی چپ چاپ چھپ کر سیف کی ساری کاروائی دیکھتے رہے۔ جب سیف بوٹیاں کھا چکا اور اٹھنے لگا تو ہم نے بھی پاس جا کر کہا السلام وعلیکم۔ ہمیں وہاں دیکھ کر سیف کے منہ سے صرف یہ الفاظ نکلے۔ " اک تے اینی گرمی وچ تواڈے واسطے پیدل روٹی لین آواں اتوں تسی میرے تے شک کردے او۔ " (ایک تو اتنی گرمی میں آپ لوگوں کے لیے پیدل کھانا لینے آؤں اوپر سے آپ لوگ میرے اوپر شک کرتے ہو۔) حالانکہ ہم نے کچھ بھی نہیں کہا تھا ہم تو صرف اسے بوٹیاں کھاتے دیکھ کر ہنسے تھے۔
دہی کا پیالہ نہیں پیالی۔
ڈی آئی صاحب نے دربار لگایا۔ تمام سٹاف سے خطاب کیا۔ اور اپنی بات ختم کرنے کے بعد ڈی آئی جی صاحب نے نفری سے مخاطب ہو کر کہا۔ " جی کسی کا کوئی مسئلہ " تو ایک انسپکٹر صاحب جو آجکل ڈی ایس پی ہیں کھڑے ہوگئے۔ " جی سر مینوں اک مسئلہ ہے" ڈی آئی جی صاحب نے فرمایا "جی جی بتائیں"
انسپکٹر صاحب۔ " سر جی کینٹین والوں نے لکھ کے لگایا ہوا ہے " دہی کا بڑا پیالہ تیس روپے کا " لیکن جب ہم دہی لیتے ہیں تو تیس روپے کی ایک چھوٹی سی پیالی دیتے ہیں وہ بھی پوری طرح بھری ہوئی نہیں ہوتی۔ "
ڈی آئی جی صاحب نے مسکرا کے کہا " یہ تو بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ٹھیک ہے کمیٹی بناتے ہیں۔ ہم اس پہ غور کریں گے آپ تشریف رکھیں۔
گنے اور مسمی۔
ایک دفعہ جھانگی والا سٹاپ پہ ہم ناکہ لگائے کھڑے تھے۔ مالٹے اور کماد کا موسم تھا۔ گنوں سے لدے ٹرالر اشرف شوگر مل کی طرف جا رہے تھے اور مالٹوں سے بھرے ٹرک بھی گزر رہے تھے۔ اس وقت لوگ ایلیٹ فورس کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ گنوں اور مالٹوں کے بھرے ٹرک جب گزرتے تو بعض ٹرک مالکان ٹرک روک کر ہمیں بخوشی گنوں کی پولیاں اور مالٹوں کی پلیاں دیتے اور گرم جوشی سے ملتے ہوئے گزرتے۔ ہم گاڑی میں چھ لوگ تھے۔ سہیل نے پلان بنایا کہ آج سارے مالٹے اور گنے کھائے جائیں گے۔ کیوں کہ یہ کلیم اللہ روز مالٹے اور گنے گھر لے جاتا ہے۔ حوالدار کلیم اللہ ہمارے شفٹ انچارج تھے۔ کسی نے چھ مالٹے کھائے کسی نے دس سب کی بس ہوگئی مگر سہیل تھا کہ آج سارے مالٹے کھاجانا چاہتا تھا۔ جب کوئی بیس کے لگ بھگ مالٹے کھا چکا چار پانچ گنے بھی چوس چکا تو میرے پاس آیا اور میرے کان میں کہنے لگا " بابا جی ہن کسے باتھ روم تک گڈی لے چل تار کم خراب ای " (بابا جی کسی باتھ روم تک گاڑی لے چلیں میری بس ہوگئی ہے۔) آج سہیل ایک بڑا آفیسر بن چکا ہے مگر آج بھی ہم جب کبھی اس واقعے کو یاد کرتے ہیں تو بہت ہنستے ہیں۔
اسی طرح ایک بار سہیل میس پہ کھانا کھا رہا تھا میں بھی میس پہ پہنچا تو سہیل نے مجھے آواز دی " بابا جی ایتھے ای آجاؤ میرے کول۔ " (بابا جی ادھر ہی آجائیں میرے ساتھ۔) میں بھی سہیل کے ساتھ ہی سالن کی پلیٹ لے کر بیٹھ گیا۔ میں نے حسب گنجائش جتنا کھانا تھا کھا چکا تو میں نے سہیل سے کہا سہیل کب کے کھا رہے ہو اب کسی دوسرے کو بھی باری دو یار۔ سہیل نے معصوم سا منہ بناکر سامنے چنگیر میں پڑی کوئی پندرہ روٹیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ " بس ایہہ دوچار روٹیاں رہ گئیاں نے کھا لین دے یار ایویں رزق خراب ہو وے گا۔ "(بس یہ دوچار روٹیاں کھا لینے دو بلاوجہ رزق خراب ہوجائے گا)۔
مسمی اور جیدا سپاہی۔
ہم راولپنڈی تھانہ صادق آباد میں تعینات تھے۔ محرم کا جلوس نکلنے والا تھا۔ میں ایس ایچ او مرزا فضل صاحب کے ساتھ گاڑی میں گن مین تھا۔ ہم جلوس کی گزرگاہوں پر گاڑی سے جوان اتار رہے تھے۔ ڈھوک کالا خاں کے ایک با زار کے چوک پر جیدے کو اتارا۔ اس چوک میں مسمیوں کی بہت زیادہ ریڑھیاں لگی ہوئی تھیں مرزا صاحب نے جیدے کو اتارتے وقت کہا " بیٹا جب جلوس گزرے تو ساری ریڑھیوں کو پیچھے گلی میں کردینا۔ جیدا یس سر کہہ کر چوک میں الرٹ کھڑا ہوگیا۔ جب ہم گاڑی میں جلوس کے تما م روٹ کا چکر لگا کر واپس اسی چوک میں پہنچے جہاں جیدے کو اتارا تھا۔ تو جیدا چوک میں کھڑا ہونے کی بجائے ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور جیدے کے سامنے چھوٹا سا لوہے کا میز بھی رکھا تھا۔ چوک کی تمام ریڑھیاں جیدے نے پیچھے گلی میں بھیج دی تھیں مگر ایک ریڑھی بالکل چوک کے درمیان میں کھڑی تھی۔ مرزا صاحب گاڑی سے اترے اور جیدے کو بلا کر کہا بیٹا باقی گاڑیاں تو پیچھے گلی میں چلی گئی ہیں یہ ایک ریڑھی ابھی تک ادھر کیوں کھڑی ہے؟ تو جیدے نے بھولی سی شکل بنا کر سر کھجا تے ہوئے کہا سر جی "ایہنے مینوں کرسی میز وی دتا اے تے مسمی وی کھوائے نیں"۔ (سر اس نے مجھے کرسی میز بھی دیا ہے اور مسمی بھی کھلائے ہیں۔)مرزا صاحب ہنسنے لگے اور کہا " بے شرماں اب جلوس آئے تو اسے کہنا ریڑھی تھوڑی پیچھے گلی میں لے جائے "
کمیشن ایجنٹ۔
دوران گشت ہم جب بھی کچھ کھانے پینے کا پروگرام بناتے تو اسلم ہمیشہ ہی خزانچی بن جاتا۔ سب سے پیسے اکٹھے کرتا جو بھی چیز کھانے کے لیے منتخب ہوتی جاکر لے آتا ا ور ایلیٹ کی گاڑی میں ہی سب کو پیش کرتا۔ آج بھی صادق گارڈن کے باہر سکھ چین کے پودوں کے نیچے گاڑی کھڑی کرکے ہماری ایلیٹ ٹیم کا سموسے کھانے کا پروگرام بنا۔ سب نے اپنے اپنے دو دو سموسوں کے پیسے اسلم کوجمع کروادیے۔ اسلم سموسے لینے ریڑھی پر جاکر کھڑا ہوگیا۔ اتفاقاََ مجھے پیاس لگ گئی میں بھی پانی پینے ریڑھی پر پہنچا تو مجھے حیرت ہوئی۔ اسلم اور ریڑھی والے کے درمیان بڑی عجیب گفتگو شروع تھی۔ اسلم کہہ رہا تھا دیکھو بھائی بارہ سموسے لوں گا لیکن پیسے دس سموسوں کے دوں گا۔ منظور ہے تو سموسے دے دو ورنہ کسی دوسری ریڑھی پہ چلا جاتا ہوں۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کو روکا۔ آج یہ انکشاف ہوا کہ اسلم ہی ہمیشہ خزانچی کے فرائض سرانجام کیوں دیتا ہے۔ میں پانی پیئے بغیر ہی واپس آگیا اور اپنی ٹیم کو اسلم کی کارستانی سنائی سب حیران پریشان اور حقے بقے میرا منہ دیکھنے لگے۔ اسلم سموسے لے کر واپس آیا تو سب نے اسلم کی خوب کلاس لی اسلم نے سینہ ٹھونک کر کہا دیکھو بھائی یہ میری محنت ہے آپ لوگوں کو تو جو چیز منگواتے ہو پوری ہی ملتی ہے ناں۔
اس طرح کے زندہ دل لوگ کسی بھی فورس کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں۔ ہنسنا ہنسانا ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ ساتھیوں کو کبھی پریشان نہیں ہونے دیتے میں نے ایلیٹ فورس میں ایسے جوانوں کو بہت بہادر ملنسار اور معصوم پایا ہے جو ہر بات سچ اور فوراََ کہہ دیتے ہیں ایسے لوگوں کے دل صاف ہوتے ہیں۔ حقیت میں ایسے جوان بہت شریف ہوتے ہیں۔