چین سے نکلا، اور پوری دنیا پر چھا گیا۔ (پھر یہ دیوارِچین کس کام کی ہے؟ ایک چھوٹے سے وائرس کو تو روک نہیں پائی) لوگوں کی تو چیخیں نکل گئیں۔ او کورونا!اب بس بھی کرو نا!کیوں ان معصوم انسانوں کو تنگ کر رہے ہو؟ انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟
کورونا!تم نے بہت سارے مشہور لوگوں کی شہرت پر ڈاکا مارا ہے۔ ان کی بد دعا تمہیں ضرور لگے گی۔ انشاء اللہ!
وہ بھی کیا دن تھے جب ٹی وی کھولتے تھے، ہائے ہائے، شیخ رشید صاحب کی شعلہ انگیزتقریر سننے کو ملتی تھی—حزبِ اختلاف کے حوالے سے۔ اور پھر دوسری جانب سے بلاول بھٹو تقریر کرتے نظر آتے تھے۔۔۔"او شیخ رشید صاحب!آپ جمہوریت کے قاتل ہیں۔۔۔"کورونا!تم نے اس رونق بھری محفل کو پاش پاش کردیا۔ اللہ تمہیں پوچھے گا۔
کورونا کے حوالے سے جتنا رونا تھا، رو لیا۔ اب بس!آگے بڑھتے ہیں۔ بھائیو اور بہنو!اس حوالے سے احتیاطی تدابیر اپنے پلے باندھ لیں کہ نہیں؟ نہیں؟ !یار کوئی شرم ہوتی ہے۔ کوئی حیا ہوتی ہے۔
چلیں اٹھیں!شاباش اچھے بچوں کی طرح ہاتھ دھوئیں۔ پورے 20 سیکنڈز لگائیں اس عمل میں۔ شاباش!میرے اچھے بچے۔ (کسی اچھے صابن کا انتخاب کیجیے گا۔ مانا پیسے بچانا اچھی بات ہے، لیکن جان زیادہ مہنگی ہے یار!سمجھو تم۔ سستے صابن کے چکر میں اپنی جان بھی سستی نہ کر بیٹھنا)
ہاتھ دھو لیے؟ شاباش!اب چلو جلدی جلدی اپنے منہ پر نقاب چڑھاؤ، اس سے پہلے کہ کوئی چھینکے یا کھانسے اور آپ پر کورونا کا ظالمانہ وار کردے۔ (میں نے سنا ہے حقوق نسواں والے کہہ رہے ہیں کہ یہ بھی زیادتی ہے۔ کورونا کو سمجھاؤ، ہمیں کیوں سمجھا رہے ہو؟ یہ نقاب چڑھانا دقیانوسی عمل ہے۔ چھیڑے کورونا، اور لیکچر سنیں ہم۔ ہٹو جی۔ ہم کیوں پردہ کریں۔ کورونا کو کہو کہ شرم کرے اور اپنی حرکتوں سے باز آجائے۔)
گھر سے باہر تو نہیں گھوم رہے نا؟ اگر ایسا ہے تو جلدی اپنے گھر چلے جاؤ۔ جلدی جلدی۔ ارے ہاں!یاد آیا۔
پھر سے رونا شروع کرتے ہیں۔ کیوں؟ ارے بھئی!ان عورتو ں کا سوچو کیا حال ہورہا ہوگا—جن کا دن شروع ہوتا تھا اور پھر اختتام کو پہنچ جاتا تھا، لیکن ان کی خریداری (شاپنگ) ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ دکھ ہوتا ہے مجھے ان کے بارے میں سوچ کر۔ بہنو!میں بھی آپ کے دکھ میں شریک ہوں۔ فکر نہ کریں، فی الوقت آن لائن شاپنگ سے کام چلا لیں۔ اللہ کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں۔ کورونا!اللہ کرے تمہیں ان عورتوں کی بد دعا لگے۔ (لیکن لگتا ہے بچوں کی دعائیں، کیونکہ ان کے اسکول تو بند ہیں، زیادہ رنگ لا رہی ہیں۔)
چلو جی!نقاب پہن لیا، ہاتھ دھو لیے، گھر میں بند بھی ہوگئے، اب بس!اس سے آگے مجھے کچھ معلوم نہیں۔ ہنسی آتی ہے۔ اکثر کورونا سے ڈرنے والوں کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ کورونا ہے کیا چیز؟ یہ ہے کس چڑیا کا نام!(لو جی، اس بات پر بھی تالی ہوجائے۔) یہ تو ٹی وی اورسوشل میڈیا کا کمال ہے۔ ورنہ زیادہ لوگوں کو تو معلوم بھی نہ ہوتا۔
ویسے تو ہر معاملے میں ہم اپنی قوم کو بدنام کرتے ہیں۔"ہاں جی!ایسی قوم پر تو آفت آنی ہی تھی۔ بدعنوانی، جھوٹ، چوری۔۔۔ آپ لوگوں کی برائیوں کی تو فہرست ہی ختم نہیں ہوتی۔ ایسی لانتیں جہاں ہوں، وہاں یہ نہ ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ کیوں جی، صحیح کہہ رہا ہوں نا؟ " لیکن یہ مرض تو پوری دنیا کو خوف زدہ کر رہا ہے۔ شاید ہی کوئی قوم اس کے وار سے محفوظ ہے۔ عجیب و غریب مناظر دکھائی دے رہے ہیں۔ واہ رے کورونا واہ!تو تو دکھائی بھی نہیں دیتا، پھر بھی تیری اتنی دہشت!
ایک وقت تھا جب امریکہ میں گورے کالوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے تھے۔ کالوں سے وہ کہتے تھے۔"دور ہٹو!ہم سے فاصلہ اختیار کرو۔ خبر دار جو ہماری عورتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھاتم لوگوں نے۔"اکثر گورے تو اس وقت کالوں سے ہاتھ ملانا بھی پسند نہ کرتے تھے۔ لگتا ہے کورونا ان تعصب پسند گوروں کا دیوانہ ہے۔ اس وقت نسل پرستی کی وبا نے، اور آج کورونا میڈم کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملاتے۔ فاصلہ رکھتے ہیں۔ کورونا نے سب کو محتاط کر دیا ہے۔ خبردار!جو کسی ایرے گیرے نتھو گیرے سے ہاتھ ملایا تم لوگوں نے۔
چلیں، ہم فرض کرتے ہیں —ایک مثال لیتے ہیں —کہ فلاں شخص میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔ اور چند دن بعد اس شخص پر قدرت مہربان ہوجاتی ہے۔ وہ صحتیاب ہوجا تا ہے۔ کیا پھر آپ اس شخص کے ساتھ بیٹھنا پسند کریں گے؟ اس کے ساتھ کھانا کھائیں گے؟ کورونا کا خوف—اللہ معاف کرے!—اتنا بڑھ گیا ہے کہ لگتا ہے، اس بیچارے کو پوری زندگی چلا چلا کر کہنا پڑے گا۔"یار مجھ سے کیوں دور بھاگ رہے ہو—او یارو!میں اب ٹھیک ہوں، کوئی خطرے کی بات نہیں۔"بیچارے بیٹھے بیٹھائے اچھوت نہ بن جائیں یہ لوگ۔
بھائیو اور بہنو!میرا یہ ماننا ہے کہ۔۔۔ خیر چھوڑیں یار۔ میں جو بھی مانوں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے ہم اپنی رائے پیش کردیتے ہیں۔ جیسے کہ کوئی سنے گا۔ لیکن حضرت یعقوبؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر کی بات تو آپ کو سننی پڑے گی—اور ماننی بھی پڑے گی۔
سورۃ یوسف کا اگر آپ نے مطالعہ کیا ہو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ واحد سورۃ ہے—اور مقام بھی—قرآن پاک میں، جس میں کہانی کا سہارا لیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں کوئی قصہ اتنی وضاحت کے ساتھ پیش نہیں کیا گیا ہے۔ اس سورۃ میں حضرت یعقوبؑ کا ایک قول درج ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا—جب ان کے بیٹوں نےمصر جانے کا عزم ظاہر کیا—کہ بچو!جب مصر داخل ہونے لگو تو الگ الگ دروازوں کا انتخاب کرنا۔ یعنی ایک لڑکا ایک دروازے سے داخل ہو، دوسرا دوسرے سے، تیسرا تیسرے سے۔۔۔ اس تدبیر کا مقصد تھا کہ اگر ایک پکڑا جائے تو دوسرے محفوظ رہیں۔ سارے ایک ساتھ داخل ہوں، اور سب ایک ساتھ پکڑ لیے جائیں گے تو مسئلہ ہوگا۔ لیکن، جیسے ہی انہوں نے یہ جملہ کہہ کر مکمل کیا تو آگے فرمایا:
"مگر میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسا کیا، اور جس کو بھی بھروسا کرنا ہو اسی پر کرے۔" (آیت 67)
ذرا اختصار پسندی تو ملاحظہ کیجیے۔ کس طرح حضرت یعقوبؑ نے اس چھوٹی سی بات کے ذریعے ایک وسیع مسئلے کا حل بیان کردیا۔ اور وہ وسیع مسئلہ ضروری نہیں کہ کورونا کی شکل میں ہی تشریف لائےگا۔ کورونا کو مارو گولی!چلو کوئی دوسرا مسئلہ اٹھا لیتے ہیں۔ (پاکستان میں بھلا کوئی کمی ہے مسئلوں کی؟ کبھی نہیں!)
بجائے اس کے کہ ہم گھبرائیں، بہتر یہ ہوگا کہ ہم رب تعالی—مالک یوم الدین، کل شئیء قدیر—پر توقع رکھیں۔ اس سے پہلے کہ آپ لوگ کہو۔"آگئے اپنی جہالت کا مظاہرہ کرنے، کردی نا دقیانوسی بات۔ او بھائی!بیٹھے بیٹھائے اللہ کچھ نہیں دیتا۔ محنت کرو بادشاہ!"
بس یار!آگے کچھ مت کہو۔ میں مزید اپنی بے عزتی برداشت نہیں کرسکتا۔ یار میں نے کب کہا بیٹھے رہو؟ ذرا غور سے دیکھو، سنو۔ حضرت یعقوبؑ نے کہا نا کہ الگ الگ دروازوں کا انتخاب کرنا، لیکن ہوگا وہی جو اللہ کو منظور ہوگا۔ میں نے شروع میں کہا تھا نا کہ احتیاط کرو، کہا تھا کہ نہیں؟ پھر!لیکن فیصلہ اللہ کی ذات کرے گی۔ لہذا گھبرائیں نہیں۔ حتمی فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے ہی نہیں تو ہم کیوں گھبرائیں؟
مجھے بھلا یہ بتاؤ مسلم کسے کہتے ہیں؟ شاباش!جسے جواب آتا ہے اپنا ہاتھ اٹھائے۔ (البتہ صاف ہاتھ ہونے چاہیں۔ )توبہ!استغفار!ان نالائقوں کو یہ بھی معلوم نہیں۔ بچپن میں اتنی مرتبہ اسلامیات کے مضمون میں پڑھایا گیا، پھر بھی بھول گئے؟ ایک مسلم وہ ہے جو اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردے۔ نہیں سمجھے؟ چلو مزید وضاحت پیش کرتا ہوں۔
ایک کہانی ہوجائے؟ جی ہاں!ایک سچی کہانی۔
ایک انگریز بیچارا مایوسی کا شکار ہوگیا۔ اس کے ایک دوست نے اسے مشورہ دیا کہ جاؤ!جاکر صحرامیں عرب بدوؤں کے ساتھ رہو۔ تمہاری مایوسی کا علاج ہوجائےگا۔ یہ بہت پرانا واقعہ ہے۔ سمجھ لیں کہ جنگِ عظیم اول اختتام کو پہنچی، اور محترم انگریز کو مایوسی نے آ جکڑا۔ موصوف نے اپنا بوریا بستر باندھا اور سیدھا عرب صحراؤں کا رخ کیا۔ موصوف نے سات سال وہاں گزارے۔ اُدھر کے لوگوں کے طرزکو اپنایا—کھانا پینا، زبان، کپڑے، سب کچھ۔ موصوف نے اپنے مضمون میں لکھا کہ یہ سات سال ان کی زندگی کے پر سکون سالوں میں شمار ہوتے ہیں۔
لے!صحرا میں نہ بجلی، نہ گیس، نہ انٹرنیٹ(یار اس دور میں انٹرنیت ہوتا کہاں تھا؟)—پھر یہ سات سال کیسے سکون سے گزرے؟ حد کرتے ہو تم بھی یار!ایک گورا، وہ بھی انگلستان کا، صحرا میں آکر خوش رہتا ہے؟ خیر یہ تو سچ ہے، اور—آپ نے سنا ہوگا—سچ کڑوا ہوتا ہے۔
موصوف نے اپنے مضمون میں چند واقعات پیش کیے ہیں۔
ایک بار ریتیلی آندھی نے آکر تباہی مچادی۔ اس حالت میں موصوف کی تو چیخیں نکل گئیں۔ البتہ بدو لوگ بالکل بے پروا تھے۔ موصوف کو گرمی، ساتھ ساتھ تیز ہوا اور آندھی نے اتنا ستایا کہ انہیں لگا کہ کہیں ان کی جلد نہ ان کے چہرے سے خارج ہوجائے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ بدو تو بے پروا ہیں، تو لامحالہ انہوں نے دریافت کیا کہ تم لوگ کس مٹی کے بنے ہو، تمہیں تکلیف نہیں پہنچ رہی۔ جواب ملا:مکتوب!مطلب یہ کہ جو ہوا وہ لکھا جا چکا ہے۔ ہم اللہ کے فیصلے کو کہاں تبدیل کرسکتے ہیں، بدوؤں کا جواب آتا ہے، جو وہ چاہے گا وہ ضرور ہوکر رہے گا، ہم اس کے فیصلے کو بدل نہیں سکتے—ہم اس طاقت سے محروم ہیں۔ جب ریتیلی آندھی "اللہ حافظ!"کہہ گئی، تب قبیلے کے سردار نے سب کو اپنے ارد گرد جمع کیا۔ اس کے لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوئے۔ سردار محترم نے کہا کہ اللہ کا شکر!جتنا مال بچ گیا وہ اللہ کی عطا ہے۔ اللہ چاہتا تو ہم سے یہ بھی چھین لیتا۔ لیکن وہ غفور و رحیم ہے۔ اس نے ہماری مدد کی۔ آزمائش کے دوران بھی اس نے ہم پر اپنا کرم نازل کیا۔ اور مزید انگریز موصوف لکھتے ہیں کہ جیسے آندھی تھمی، سب لوگ اپنا کام کرنے میں مصروف ہوگئے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ "مر گئے!اتنا نقصان ہوگیا ہمارا۔"بلکہ وہ تو کہنے لگے۔"اللہ کا شکر!اتنی تباہی کے باوجود اتنا مال بچ گیا۔"دیکھا جائے تو معاملہ نگاہ کا ہے۔ مثبت آنکھ مثبت پہلو تلاش کرے گی، منفی آنکھ کی توجہ گندگی کی جانب مرکوز ہوگی۔
لیکچر—او معذرت!"پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست!"کہانی کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ البتہ انگریز موصوف کی مایوسی کہیں صحرا کی ہوا میں غائب ہوگئی۔
موصوف نے جب یہ دیکھا کہ یہ غریب لوگ کچھ نہ ہونے کے باوجود، اتنی تکالیف سہنے کے بعد بھی پُر اطمینان زندگی گزار رہے ہیں —ہر چیز کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ کر، محنت کرکے، نتیجوں سے لاپروا ہوکر، سکون کو گلے لگا رہے ہیں، تو اس نے ضرور بے اختیار کہا ہوگا۔"یار واہ!"
موصوف ایک دوسرا واقعہ بھی بیان کرتے ہیں۔ ایک بار صحرا میں جیپ کے ذریعے سفر کیا جارہا تھا کہ اچانک پہیا پھس ہوگیا۔ ہاں!ہاں!سپئیر ٹائر رکھا جاتا ہے۔ تاکہ اگر گاڑی کا ایک پہیا خراب ہوجائے تو اس سے فی الوقت کام چلا لیا جائے۔ لیکن ڈرائیورصاحب اس کا بھی ستیاناس کرچکے تھے۔ انگریز موصوف نے عرب بدوؤں سے دریافت کیا۔"اب کیا ہوگا؟ "تو انہوں نے کہا۔ گھبرانے سے، غصہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس پہیے کو پھٹنا ہی تھا۔ مکتوب!(یہ لکھا جا چکا ہے۔ )ہمیں اسے تسلیم کرنا ہی ہوگا۔ لہذا پھٹے ہوئے پہیےسے کام چلانا پڑا۔ گاڑی تین پہیوں اور ایک رِم کا سہارا لے کر چل رہی تھی۔ اچانک گاڑی کا پیٹرول بھی ختم ہوگیا۔ ویسے تو ایسے وقتوں کے لیے پہلے سے تھوڑے پیڑول کا بندوبست کیا جاتا ہے—تاکہ جب گاڑی رک جائے، پیڑول کی قلت کے باعث، تو اسے استعمال کیا جائے۔ لیکن ڈرائیور صاحب تو سپئیر ٹائیر نہیں رکھتے تھے تو اس کا انہیں خیال کہاں آتا۔ پھر کیا ہونا تھا۔ پیدل سفر اختیار کرنا پڑا۔ البتہ کسی نے ڈرائیور کو کچھ نہ کہا۔ کہا تو بس یہ :"مکتوب!"اور پھر گانا گاتے، ہنستے ہنستے سفر مکمل کیا۔ (ملاحظہ ہوآر وی سی بوڈلی کامضمون "آئے لِوڈ ان دا گارڈن اوف اللہ "۔ یہ مضمون انٹرنیت پر موجود ہے۔ پڑھیے اور دیکھیے کہ کہیں مصنف نے کوئی غلط بیانی تو نہیں کی؟ )
دوستو!یہاں آکر کہانی ختم ہوجاتی ہے۔ انگریز موصوف لکھتے ہیں کہ جو بھی ہو، جو بھی نتیجہ نکلے، اسے اللہ کا فیصلہ ماننا—شکایت نہ کرنا—یہ سوچنا کہ جو ہوا اچھا ہوا، اللہ کا حکم افضل ہے، اس فلسفے کے تحت انہیں راحت ملی۔ سات سال انگریز موصوف نے اس چین اور سکون سے گزارے جس کے لیے بہت سارے لوگ ترس جاتے ہیں۔ آپ نےضرور دیکھا ہوگا، ایسے لوگ سیلف ہیلپ کتابیں خرید کر پڑھیں گے، ماہر نفسیات سے رجوع کریں گے، مختلف قسم کی دواؤں کا انتخاب کریں گے، لیکن اس سب کے باوجود سکون نام کی چڑیا ان کے قریب بھی نہیں بھٹکتی۔
نالائقو!کیا تم اب بھی نہیں سمجھے مسلم کسے کہتے ہیں؟ اور یہ کہ اللہ کے فیصلے کے آگے سر جھکانے میں ہی راحت ملتی ہے؟ کیوں نہیں سمجھے ہونگے، ضرور سمجھے ہونگے۔ آخر سمجھانے والا بھی تو کسی سے کم نہیں۔ سبحان اللہ!کیا خوب سمجھایا میں نے۔ (اپنی تعریف کرنے میں بڑا لطف حاصل ہوتا ہے۔ )
ابھی میں اپنی اہلیہ صاحبہ کے ساتھ "پولی اینا" ناول پڑھ رہا ہوں۔ نہیں، معذرت!دراصل پڑھتی وہ ہیں (دل میں نہیں، زبان کا سہارا لے کر)، میں بس سن لیتا ہوں۔ نالائق جو ہوں۔ پڑھنا کہاں آئے گا مجھے۔ پولی اینا ایک ایسی لڑکی ہے جو ہر بات میں، ہر چیز میں، کوئی نہ کوئی مثبت پہلو ڈھونڈ لیتی ہے۔ ذرا یہ دیکھیں کہ کورونا نے نقصان کے ساتھ ساتھ فائدہ بھی دیا ہے۔ ویسے تو روتے رہتے ہیں کہ "وقت نہیں، کیا کریں۔"اب لوک ڈاؤن اور حکومتی انتظامات کے باعث گھر تک محدودہوگئے ہیں تو اس بات کا فائدہ اٹھاؤ نا یار!(ویسے تو جو بھی موقع ملے اس کا فائدہ اٹھاتے ہو۔ حتی کہ چھٹی کے لیے بہت سارے پاپڑ بیلتے ہو، جھوٹی وجوہات ڈھونڈتے ہو، اب جب یہ نعمت نصیب ہوئی ہے تو روتے کیوں ہو بھئی؟) ریاست چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ گھر میں ٹکے رہو بھائی جان!سوائے کسی ضروری کام کے باہر کا رخ نہ کرو۔ تو حضرات!ورزش کیجیے، مطالعےکو گلے لگائیے، اپنے بیوی بچوں کو وقت دیجیے۔ ویسے تو ہر بار کہتے رہتے ہو—بُری شکل بنا کر—کہ"فارغ سمجھا ہے کیا؟ "اب جب فارغ ہو تو فالتو کیوں بیٹھے ہو؟
کیوں بھائیو اور بہنو!آپ لوگوں کا دماغ چاٹ لیا میں نے۔ (اپنا تو ٹائم پاس ہوگیا۔ )چلو اب "اللہ حافظ "کہنے کا وقت ہے۔ وہ گھڑی بالآخر آگئی۔ جاتے جاتے کہہ دوں: "ہاتھ دھوئیے گا ضرور، مضمون کو پڑھنے کے بعد، اور ماسک بھی چڑھا لیں منہ پر، جلدی جلدی۔ کیونکہ میں چھینکنے یا کھانسنے والا ہوں۔"آ۔۔۔ آ۔۔۔ چھووووو!مذاق کر رہا ہوں یار۔ کہاں بھاگے جارہے ہو؟ اللہ حافظ!