1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. باشام باچانی/
  4. ڈھائی سالہ ملکی تاریخ، کون محسن اور کون دشمن؟

ڈھائی سالہ ملکی تاریخ، کون محسن اور کون دشمن؟

ہمارے وطن عزیز کی ڈھائی سالہ تاریخ پر آپ نگاہ رکھیں گے، کہ ابھی پچھلے ڈھائی سالوں میں کیا ہوا ہے، تو آپ کو پتہ چلے گا کہ دو گروہوں کے درمیان لڑائی ہے۔

ایک طرف ملک کی اکثریت آبادی ہے، میں غالباً کہوں گا 60 سے 70٪ آبادی، اور ایک طرف 20 سے 25٪ لوگ ہیں جو ابھی الحمد اللہ۔۔ ان کے ذہن بھی محفوظ ہیں، ان کا ایمان بھی محفوظ ہے، وہ ایک فتنے فسادی اور زانی اعظم اور ناجائز اولاد کے باپ کو اپنا نجات دہندہ نہیں سمجھتے، اور وہ اپنے ملک کی فوج سے ہمدردی رکھتے ہیں اور وہ اپنے ملک کی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں اور اداروں کے ساتھ اور نظام کے ساتھ۔

جبکہ دوسری جانب عمرانڈوز، یوتھیے، عمران خان، پی ٹی آئی اور ان کے ہمدرد اور ان کے ساتھی ایک جگہ کھڑے ہیں اور وہ پچھلے ڈھائی سالوں سے کیا کر رہے ہیں؟

کیونکہ دیکھیں اگر اسٹیبلشمنٹ غلط ہے تو ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی ڈھائی سالہ حرکتوں پر نگاہ رکھنی چاہیے اور اگر عمران خان غلط ہیں تو ہمیں عمران خان کی ڈھائی سالہ حرکتوں پر نگاہ رکھنی چاہیے۔

پچھلے ڈھائی سالوں سے کیا ہورہا ہے؟ ایک جماعت ہے جو کبھی چاہتی ہے کہ راستے شاہراہیں بند ہوں، کبھی وہ چاہتے ہیں ملک بند ہو، کبھی وہ کہتے ہیں کہ ہم احتجاج اور فساد کرتے رہیں گے اور انہوں نے ہماری ڈھائی سالہ ملکی تاریخ میں املاک کو نقصان بھی پہنچایا، حتی کہ اپنے ہی ملک کے خلاف، اپنے ہی ملک کے محسنوں کے خلاف سازشیں کی ہیں، اپنی ہی فوج کو گالیاں دی ہیں، دشمن ملک کی تعریفیں کی ہیں۔ یہاں تک کہ عالمی اداروں کو خط لکھے گئے ہیں کہ پاکستان کی امداد روکیں، پاکستان پر پابندیاں لگائیں، پاکستان کو دیوالیہ کریں اور پچھلے ڈھائی سال سے یہ لوگ ایک ہی راگ الاپتے رہے کہ اگر ہمیں حکمرانی نہیں ملی تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔

ملک، الحمد اللہ، دیوالیہ نہیں ہوا۔ شرح سود میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی گر رہی ہے۔ ملک کا خسارہ قابو میں آرہا ہے۔ تاریخی بلندی دیکھی جارہی ہے ترسیلات زر کے حوالے سے بھی اور برآمدات کے حوالے سے بھی۔ سرمایہ کاری بھی ہورہی ہے اور ملک کی ترقی اعداد و شمار کے ذریعے بڑی واضح نظر آرہی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ اپنی بلندی کی سطحوں کو عبور کر رہی ہے۔ تو ملک تو ترقی کر رہا ہے، خسارے سے بھی نکل رہا ہے، اور آہستہ آہستہ مہنگائی بھی کم ہوگی، ترقی بھی ہوگی، نوکریاں بھی آئیں گی، سرمایہ کاری بھی ہوگی۔

اس حد تک جس حد تک ہم اس کے مستحق ہیں۔ ظاہر ہے ہم بہت زیادہ آبادی پیدا کرنے والے ملک میں رہتے ہیں اور اکثر لوگ وہ تعلیم بھی حاصل نہیں کرتے جس کی عالمی یا نجی منڈی میں مانگ ہو۔

تو ایک طرف ملک کی اسٹیبلشمنٹ ہے، فوج ہے، نظام ہے، حکومت ہے اور وہ 20 سے 25٪ لوگ ہیں جو اپنے ملک کے ساتھ اور اس کے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ لوگ جو ایک شخص کی محبت میں گرفتار ہوکر اپنے ہی ملک کے پرچم کو آگ نہیں لگاتے۔ وہ لوگ جو شہداء وطن کی یادگاروں کو مسمار نہیں کرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کی شاہراہوں کو کھلا دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو کاروباری زندگی کو چلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو اپنے لیڈرکے اقتدار سے نکالے جانے کی وجہ سے ملک کو آگ لگانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ بھی نہیں جو دعائیں کرتے ہیں کہ امریکا مداخلت کرے اور ان کے لیڈر کو قید سے باہر نکلوائے۔

کتنی بے شرمی کی بات ہے۔ کتنی بے غیرتی کی بات ہے۔ ڈھائی سالوں پہلے کہا گیا امریکی غلامی نامنظور۔ امریکا کا سفیر کون ہوتا ہے ہمارے معاملات میں بولنے والا۔ آج یہی لوگ دعائیں کر رہے ہیں کہ ان کا مند پسند امریکی صدارتی امیدوار انتخابات جیتے اور پاکستان پر زور ڈالے۔ کھلے ذہن کے لوگ اس ننگی منافقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ جھوٹ پکڑا ہی جاتا ہے بالآخر۔ امریکی مداخلت ہوئی نہیں تھی، البتہ وہی لوگ جو اس وقت امریکی مداخلت کی مخالفت کر رہے تھے، آج امریکی مداخلت کی دعائیں کر رہے ہیں۔ ایسے جاہل بے غیرت لوگوں پر بے شمار لعنت۔ ان لوگوں کا کوئی دین اور ایمان نہیں۔

تو پچھلی ڈھائی سالہ تاریخ پرنگاہ رکھنے کے بعد آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایک جانب وہ لوگ ہیں جو ملک کو دیوالیہ ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک کو مشکل حالات سے بچایا۔ اگر ملک دیوالیہ ہوجاتا تو آپ کو نہ پیٹرول ملتا، نہ بجلی چلنی تھی اور نہ ہی انٹرنیٹ۔ انٹرنیٹ بجلی کا محتاج ہے اور بجلی تیل کی محتاج ہے اور تیل ہم باہر سے درآمد کرتے ہیں۔ ملک دیوالیہ ہونے کا مطلب یہ کہ ہمیں نہ دوائیاں ملتیں اور نہ ہی کھانا۔ کیونکہ ذریعی ملک ہونے کے باوجود ہمارے پاس اس قدر ذریعی پیداوار نہیں کہ ہم اپنی آبادی کا پیٹ پال سکیں۔

آپ کو پتہ ہے اگر ملک دیوالیہ ہوجاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ سنیے خود عمران خان کی ہی زبانی:

"اگر ملک ڈیفالٹ کرتا ہے تو آپ کو، کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ ملک کتنا پیچھے چلا جاتا۔۔ ابھی تو شور مچا رہے ہیں کہ روپیہ گرا ہے، آپ کو اندازہ نہیں روپیہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتا۔ بوریاں اٹھا کے، روپیوں کو لے کے جاکے، ڈبل روٹی ملنی تھی جو آج وینزویلا میں ہورہا ہے۔ ڈیفالٹ اگر ہوجاتا ہماری ساری اکانامی بیٹھ جانی تھی"۔ (11 جون، 2019ء)

بطور وزیر اعظم انہوں نے خطاب کرتے ہوئے یہ کلمات قوم کے سامنے پیش کیے تھے۔ یعنی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک جب دیوالیہ ہوجاتا ہے تو کیا ہوتا ہے۔ لیکن آج یہ خطوط لکھ رہے ہیں، کبھی آئی ایم ایف کو تو کبھی مغربی ممالک کے سربراہوں کو کہ پاکستان پر پابندیاں لگائیں اور اس کی مالی امداد اور قرضوں کی قسطوں کو عمران خان کی رہائی سے مشروط کریں۔ 2022ء میں تو شوکت ترین کی آڈیو لیک نے یہ بھانڈہ پھوڑ دیا تھا کہ یہ لوگ پس پردہ آئی ایم ایف کے معاہدہے کو تباہ کرنا چاہ رہے تھے۔

لیکن میرے رب کی شان! اتنی سازشوں کے باوجود ملک دیوالیہ نہیں ہوا۔

تو ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک کو خسارے سے بچایا، ملک کو ایک فتنے فسادی کے ہاتھوں میں یرغمال نہیں ہونے دیا۔ دوسری طرف ایک جماعت ہے، جس کے سربراہان عالمی اداروں کو خطوط بھیج رہے ہیں کہ پاکستان کو قرضوں کی قسطیں نہ دیں، پاکستان کی امداد روکیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عالمی تنظیموں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ آپ پاکستان کے خلاف کاروائی کریں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ جب تک عمران خان بر سر اقتدار نہیں آتا، ملک بے شک برباد ہوجائے۔

اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ وہ شخص آپ سے مخلص ہوسکتا ہے جو آپ سے کہے کہ تمہیں ظالم حکمران سے آزادی دلانے کے لیے میں تمہارے ہی گھر کو آگ لگاؤں گا، تمہاری خوراک محدود کردوں گا، تمہارے گھر کا ستیاناس کروں گا، تمہارے سامان کو نیلام کردوں گا، تمہارے روزگار کو چھین لوں گا۔ آپ کہوگے یار! اس سے حکمران کو تو کچھ نہیں ہوگا، نظام کو تو کچھ نہیں ہوگا، اشرافیہ کو کچھ نہیں ہوگا، تم میرے کو گھر کو جلا کر اشرافیہ اور حکومت کو کیا نقصان پہنچا رہے ہو؟

تو پچھلے ڈھائی سالوں سے کونسی جماعت ملک میں افرا تفری، انتشار، فساد، اور دیوالیہ ہونے کی پیش گوئی کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ جدوجہد بھی کر ہی ہے اپنی پیش گوئی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے؟ کون اس چیز کی خواہش کر رہے ہیں؟ کون جعلی خبروں کو طول دے رہے ہیں تاکہ ملک میں خانہ جنگی ہو؟ کون آئی ایم ایف کو خط لکھ رہے ہیں کہ پاکستان کو قرض نہ دیں؟

کون محسن ہے اور کون دشمن؟ اچھی طرح واضح ہوچکا ہے۔ اللہ نے عقل دی ہے اس کا استعمال ضرور کیا کریں۔ ورنہ جو چیز استعمال نہ کی جائے تو وقت کے ساتھ خراب ہوجاتی ہے۔

باشام باچانی

Basham Bachani

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔