1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. باشام باچانی/
  4. یہ بور نہیں ہوتی (1)

یہ بور نہیں ہوتی (1)

"ڈاکٹر صاحب !میری یہ بچی ایبنورمل ہے۔ ۔ ۔ میں بہت پریشان ہوں، ڈاکٹر صاحب۔" ایک والدہ اپنی بیٹی کے بارے میں ماہر نفسیات سے گفتگو کر رہی تھی۔ "ڈاکٹر صاحب یہ جو سلمہ ہے نا، یہ میرے چاروں دوسرے بچوں سے مختلف ہے۔ مجھے تو اس کی سمجھ نہیں آتی۔ ۔ ۔ " والدہ تفصیل سے اپنی بیٹی کےبارے میں ڈاکٹر صاحب کو آگا ہ کرتی ہے۔ ماہر نفسیات غور سے اُس عورت کی ساری باتیں سنتا ہے۔ والدہ، بالآخر، اصل بات بیان کردیتی ہے: "ڈاکٹر صاحب !یہ بور نہیں ہوتی۔" ڈاکٹر صاحب یہ سُن کر مسکرا دیتے ہیں۔ وہ عورت اپنی بیٹی کے بارے میں ہر بات اسی جملے سے مکمل کرتی ہے۔ اُس عورت کو یہ پریشانی تھی کہ میری بیٹی مطمئن کیوں ہے۔ وہ عورت بیان کرتی ہے کہ اُس کے دوسرے بچے تو گھومتے پھرتے ہیں، بہت سی چیزیں طلب کرتے ہیں، لیکن اُس کی یہ بیٹی تو ہر حال میں خوش ہے۔ کسی بھی جگہ چھوڑ دو، وہ بور نہیں ہوتی۔ یہ منظر ہے اشفاق احمد کے مشہور ڈرامے کا:سائیں اور سکائی ٹرسٹ۔ جب میں نے یہ منظر ڈرامے میں دیکھا، تو میں نے دل ہی دل میں اپنے آپ سے کہا: "یہ تو سراسر مبالغہ آمیزی ہے۔" خیر، ہم جیسے کم علم لوگ، اشفاق احمد کے ڈرامے کو کیسے سمجھ سکتے ہیں بھلا؟ کچھ سالوں بعد میں نے حقیقت میں اس منظر کا مشاہدہ کیا۔
"تم تو میرے بیٹے لگتے ہی نہیں۔" ایک والدہ اپنے بیٹے سے کہہ رہی تھی۔ "لگتا ہے میں نے کسی اور بچے کو جنم دیا، اور غلطی سے ہم ہسپتال سے کسی اور بچے کو لے آئے۔" ایک والدہ اپنے اصل بیٹے کے بارے میں ایسا کہہ سکتی ہے، میں نے کبھی نہ سوچا تھا۔ جس لڑکے کا یہاں ذکر ہورہا ہے وہ ہو بہو اپنے نانا جیسا دکھتا ہے۔ پھر بھی اُس کی ماں کہہ رہی تھی کہ "تم میرے بیٹے نہیں لگتے۔" صرف اس لیے کہ وہ لڑکا اپنے رشتے داروں کی طرح مادہ پرست ذہنیت نہیں رکھتا۔ وہ سادگی پر ایمان رکھتا ہے: اے سی نہیں چلاتا، فضول میں پیسے خرچ نہیں کرتا، گھومنے پھرنے کا شوقین نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ پھر سب سے اہم بات: وہ لڑکا بالکل سادہ لباس پہنتا ہے۔ کبھی کبھی جب ہم غور سے دیکھتے تو اس کے کپڑے پھٹے ہوئے بھی ملتے۔ امیر ہونے کے باوجوداس لڑکے نے مہنگے کپڑے نہیں خریدے۔ میں یہ دو قصے، ایک حقیقت پر مبنی، دوسرا افسانوی، کیوں بیان کر رہا ہوں؟
آپ اپنے اردگرد دیکھیں۔ کتنے لوگ آپ کو مطمئن ملیں گے؟ بہت کم۔ وجہ؟ کیونکہ ہم مطمئن رہنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ بندہ کامیاب ہے جو سارا دن مال کمانے میں گزاردے، جس کے پاس کروڑوں کا بینک بیلینس ہو، مہنگی گاڑی ہو، کسی اعلی ادارے میں کام کرتا ہو، وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ وہ بندہ جو کسی بھی حلال ذرائع سے مال کماتا ہو، جو بے شک کم ہی کیوں نہ کماتا ہو، لیکن سکون کی زندگی بسر کرتا ہو، وہ ہمارے لیے مثالی شخص نہیں۔ ہمیں مثالیں ہی ایسی دی جاتی ہیں: یہ دیکھو فلاں بندہ جو کل تک غریب تھا، آج بڑے بڑے اداروں کا سربراہ ہے۔ ۔ ۔ یہ دیکھو فلاں شخص جو آج کروڑوں کما رہا ہے، ساری دنیا میں اس کی کمپنی کاروبار کرتی ہے۔ ۔ ۔ اور ہمیں اپنے بچوں کو ڈرانا ہو تو ایسی باتیں اُن سے بیان کرتے ہیں: "پڑھائی نہیں کرنی؟ آگے جاکے ٹھیلا لگانا ہے؟ مالی بنوگے؟ چپراسی بنوگے؟" کیوں بھائی؟! مالی اور چپراسی نے آپ کا کیا بگاڑ دیا؟ کیا انہوں نے ملک کو تباہ کیا ہے؟ انہوں نے بدعنوانی کے ذریعے دوسرے ملکوں میں اپنی جائدادیں بنائی ہیں؟ ہم شروع دن سے بچوں کے معصوم دلوں میں ایسے محنت کش لوگوں کےحوالے سے حقارت پیدا کردیتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں سے یہ کیوں نہیں کہتے، "کیا اُن بدعنوان افسروں جیسے بنو گے؟ کیا اُن سیاستدانوں کی طرح زندگی گزاروگے جو ملک کو تباہ کرتے ہیں؟"
ہم لوگ مطمئن کیوں نہیں؟ ہم لوگ زیادہ سے زیادہ کی طلب میں کیوں گمراہ ہوچکے ہیں؟ اس حوالے سے مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک بار رسول اکرم ﷺنے ابو عبیدہ بن جراح کو ایک لشکر کا سردار بنا کر کہیں بھیجا۔ تقریباً تین سو آدمیوں کا لشکر تھا۔ حضور اکرم ﷺنے لشکر کو کھانے کے لیے کچھ کھجوریں عنایت کیں۔ جیسے جیسے سفر بڑھتا گیا، کھجوریں کم ہوتی گئیں۔ حتی کہ ایسا وقت بھی آیا کہ دن میں ایک صحابہ کو صرف ایک کھجور ملتی۔ لوگوں نے اس حالت میں عرض کیا: "اے ابو عبد اللہ! بھلا ایک کھجور سے آدمی کا کیا بنتا ہوگا؟" حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ، جو اس لشکر میں شامل تھے کہتے ہیں: "جب وہ (ایک کھجور فی دن)بھی نہ رہی تو اس وقت ہم کواس کی قدر معلوم ہوئی۔" صحابہ کرام پھر سمند کے قریب جب آئے تو انہیں ایک مچھلی ملی۔ اُس ایک مچھلی کو وہ سارے اٹھارہ دن تک کھاتے رہے۔ (ص 514، سیرت ابن ہشام، جلد دوم، مترجمین:مولوی قطب الدین احمد اور سید یسین علی حسنی نظامی دہلوی، ناشر:مکتبہ رحمانیہ؛سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4159، مترجمین:مولانا ضیا الرحمن اور مولانا محمد یامین، ناشر:دارالاشاعت) انسان جب شکر کرنا بھول جائے، جب وہ اپنے پاس رکھی ہوئی چیز کی قدر نہ کرے، تو اللہ اس سے وہ بھی چھین لیتا ہے جو اس کے پاس ہے۔ یا پھر اللہ زیادہ دے دیتا ہے، لیکن اپنی برکت سے محروم کردیتا ہے۔ لہذا، آپ کو ایسے لوگ ملیں گے جن کے پاس ہر چیز موجود ہے، لیکن سکون نام کی چیز ان سے خفا ہے۔ اللہ تعالی ہم سے اپنی آخری کتاب، قرآن پاک کے ذریعے فرماتے ہیں: "اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری سے کام لوگے تو (یاد رکھو!) میرا عذاب شدید ہے۔" (14:7)
جاری۔۔

باشام باچانی

Basham Bachani

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔