1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. باشام باچانی/
  4. بنگلہ دیش کا سہانا مستقبل

بنگلہ دیش کا سہانا مستقبل

بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر میں آج ایک پیش گوئی آپ لوگوں کے سامنے رکھنے جارہا ہوں۔ اس پیش گوئی کے پیچھے علم نجوم نہیں، نہ ہی میں یہ دعوی کرتا ہوں کہ (نعوذباللہ!)میں غیب کا علم رکھتا ہوں۔ نہیں! غیب کا علم صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ باقی علم نجوم کو میں مانتا نہیں۔ تو میں یہ پیش گوئی کس بنیاد پر کر رہا ہوں؟ بالکل اسی طرح جیسے آپ کسی فضول خرچ بندے کو پیسے اڑاتے دیکھ کر اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ بندہ آگے جاکر مالی مشکلات کا شکار ہوگا۔ شاید آپ کی بات غلط بھی ثابت ہوجائے، لیکن آپ یہ اندازہ لگانے پر حق بہ جانب ہونگے۔

آج جس طرح بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ صاحبہ کی حکومت کا تختہ الٹا گیا، جس طرح ان کے گھر پر دھاوا بولا گیا، جس طرح شیخ مجیب الرحمان کے مجسموں کی توہین کی گئی، ان کے مجسموں کو جوتوں کا ہار پہنایا گیا، یہ سب دیکھ کر مجھے بطور پاکستانی بڑی خوشی ہوئی۔ کیونکہ ہمارے ملک میں سقوط ڈھاکہ سے لے کر اب تک ہماری فوج کو گالیاں دی جاتی تھیں، موجودہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کو قصور وار ٹھرایا جاتا تھا، ہمیں سکھایا جاتا تھا کہ ہم نے مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ زیادتی کی، انہیں معاشی طور پر محروم رکھا، ان کو فوج اور سرکاری ملازمتوں میں حصہ نہیں دیا، ہم نے ان کے لیڈر شیخ مجیب کو اپنی قوم کا بھلا نہیں کرنے دیا، وغیرہ وغیرہ۔۔ ان ساری باتوں کی آج نفی ہوگئی۔

وہی شیخ مجیب جو ہمارے کئی فوج سے نفرت کرنے والے، پاکستان کے قیام اور اس کے وجود سے نفرت کرنے والے، صحافی، دانشوروں اور سیاستدانوں کی آنکھوں کا تارہ تھا، آج اس کی بیٹی کو اسی بنیاد پر ملک بھاگنے پر مجبور کیا گیا جس بنیاد پر موجودہ پاکستان کو بنگلہ دیش کا مجرم بنایا جاتا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ موجودہ پاکستان نے بنگلہ دیش کو حق رائے دہی سے محروم رکھا۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ ہم بنگالیوں کا قتل کرتے تھے۔ ہم بنگالیوں کو ملازمتوں میں مساوی حقوق نہیں دیتے تھے۔ لیکن آج اتنے سالوں بعد، یہی سارے الزام شیخ حسینہ پر لگائے جارہے ہیں۔

یہ احتجاج اور بدامنی جو بنگلہ دیش میں نظر آئی، جس نے حسینہ صاحبہ کے اقتدار کو موت بخشی، یہ "کوٹا" کے خلاف تھی، وہ "کوٹا" جس کی وجہ سے مخصوص خاندان کے لوگوں کو سرکاری نوکریوں کا اچھا خاصا حصہ مل جاتا تھا، جبکہ اکثر بنگالی اس "کوٹا" کے فیض سے محروم تھے۔ ساتھ ساتھ شیخ حسینہ پر انتخابات میں دھاندلی کرنے کا الزام بھی ہے۔ ان پر معصوم شہریوں کے قتل کا الزام بھی ہے۔ لوگوں کی آواز کو دبانے کا الزام بھی ہے۔ حسن اتفاق تو دیکھیے، یہی سارے الزام شیخ مجیب اور ان کے ٹٹو موجودہ پاکستان پر لگاتے تھے۔ آج ان کی بیٹی پر یہ سارے الزام لگ رہے ہیں اور وہی شیخ مجیب جو ایک وقت میں بنگلہ دیش کا بانی مانا جاتا تھا، آج اسی کی قوم اس کے مجسمے کو جوتوں کا ہار پہنا رہی ہے۔

مجھے بطور محب وطن پاکستانی بڑا مزا آیا یہ سب دیکھ کر۔ کلیجے کو ٹھنڈک مل گئی اور اب ان پاکستانیوں سے ذرا پوچھیے جو مجیب الرحمان کو نجات دہندہ کہہ کر پکارتے تھے، جو کہتے تھے مجیب الرحمان بنگالی قوم کا مخلص رہنما تھا، کہ بھئی! اب آپ کا کیا کہنا ہے؟ اب تو اسی بنگالی قوم نے اس کے مجسموں کا ستیاناس کردیا۔ اس کی بیٹی کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ آپ تو ہماری فوج کو گالیاں دیتے تھے، کہتے تھے کہ پاکستانی فوج نے وہاں کے لوگوں کو محروم رکھا، ان پر تشدد کیا، وغیرہ وغیرہ۔ کیا اب بھی پاکستانی فوج وہاں موجود تھی؟ کیا شیخ حسینہ نے یہ ظلم پاکستانی فوج کے کہنے پر کیا؟ اور لوگ اتنے سالوں بعد اگر اسی شخص کو جوتوں کو ہار پہنا رہے ہیں، جس کے بارے میں آپ لوگ تعریفی کلمات سے ہمارے کان پکا دیتے تھے، تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس وقت ہماری فوج صحیح تھی؟ خیر، یہ ماننے سے پہلے ہمارے فوج مخالف لوگ خودکشی کرلیں گے، لیکن وہ اپنی آنکھیں نہیں کھولیں گے۔

اور اللہ کا نظام دیکھیے۔ کیسے فاسقوں کے منہ پر تماچہ پڑا۔ چند دنوں پہلے پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم نے 1971ء کا موازنہ آج کی صورت حال سے کیا۔ شیخ مجیب کو ہیرو بنا کر پیش کیا۔ لیکن اس کے بعد ان کا یہ بیانیہ ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ وہی مجیب جس کا موازنہ آج عمران خان کے ساتھ کیا جارہا تھا، اس کو بنگالی قوم نے جوتوں کا ہار پہنا دیا۔ سبحان اللہ! الحمد اللہ! ایسے ہی نہیں کہتے جھوٹوں، مکاروں اور فریبیوں پر اللہ کی لعنت ہے۔

یہ سب تو میں نے کہہ دیا، اب میں آتا ہوں اپنی پیش گوئی کی طرف۔ تو دوستو! آپ نے بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال پر کئی انفلوئنسرز اور صحافی اور یوٹیوبرز کا گھسا پٹا تجزیہ ملاحظہ کر لیا ہوگا۔ یہی بات کہ دیکھو جب عوام کھڑی ہوجاتی ہے تو حکمرانوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ میں یہ جاہلانہ باتیں کرنے سے رہا۔ لہذا میں حقیقت بیان کروں گا۔ آج یوں سمجھ لیجیے کہ بنگلہ دیش کی مکمل تباہی کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ میرا تجزیہ ہے اور اس تجزیے کے پیچھے ایک بنیادی حقیقت ہے۔

شیخ حسینہ نے جو کیا سو کیا، لیکن طلبا نے جس طرز پر تباہی مچائی، جس طرح کے مناظر ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس سے یہ واضح ہے کہ آگے صرف تباہی ہی تباہی ہے۔ جو بھی تصاویر اور وڈیوز ہم تک پہنچی ہیں، ان میں صاف نظر آرہا ہے کہ طلبا کبھی پارلیمینٹ پر حملہ آور ہیں تو کبھی وہ جلاؤ گھیراؤ میں مصروف ہیں۔ اب طلبا اس کام میں لگ جائیں گے تو کیا ملک کبھی بھی ترقی کرے گا؟ سوچیے آج جتنے بھی لوگ پلمبنگ کا کام سیکھ رہے ہیں، وہ اپنی تربیت کے دنوں میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں لگ جائیں گے، تو کیا ہوگا؟ سب سے پہلے تو ملک کو آگے پلمبرز نہیں ملیں گے۔ دوسرا پلمبرز کو دیکھ کر دوسرے بھی اپنا کام چھوڑ کرلوٹ مار کا کام اختیار کرلیں گے اور یوں معاشرہ ہمیشہ شرپسندوں کی کٹھ پتلی بن جائے گا۔ دوسرا معاشرے کو جب تربیت یافتہ پلمبرز اور ٹیکنیشنز نہیں ملیں گے تو معاشرہ کیسے چلے گا؟ کیونکہ جن کو ٹیکنیشن اور پلمبر بننا تھا، وہ تو تربیت چھوڑ کر توڑ پھوڑ میں ملوث ہوگئے ہیں اور ایک بار یہ کام لوگ اختیار کرلیں گے، تو وہ پاگل ہیں کہ واپس پڑھائی اور تربیت کا راستہ اختیار کریں گے؟

پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ طلبا کے سامنے ریاست نے گھٹنے بھی ٹیک دیے۔ اب آگے ہم مسلسل بنگلہ دیش میں ہر آئے دن نئی حکومت کا قیام دیکھیں گے۔ چند مہینوں اور سالوں کے اندر طلبا بیزار ہوکر یہی کام واپس سے دہرائیں گے، کیونکہ پڑھائی کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوگا۔ جس سے ریاست دباؤ کا شکار ہو کر ہر بار یہی کرے گی جو آج بنگلہ دیش میں ہوا۔ ایک حکومت گرے گی اور نئی حکومت قائم ہوگی۔ ملک کا امن شرپسند طلبا کے ہاتھوں یرغمال ہوجائے گا۔

یہ ہے میرا تجزیہ۔ یہ ہے میری پیش گوئی۔ میری بات سچ بھی ثابت ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔ کیونکہ میں انسان ہوں لہذا میرا تجزیہ غلط بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ میری پیش گوئی بھی ریت کی دیوار ثابت ہوسکتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

ہاں! جاتے جاتے میں یہ بتا دوں کہ ہمارے لیے اس سب میں بہت بڑا سبق ہے۔ 9 مئی کو جب ملک دشمن جماعت اور اس کے سرغنہ نے ملک میں فساد برپا کرنے کی کوشش کی، فوجی، نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، فوجیوں پر پتھر برسائے، تب ہماری فوج نے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ (بلکہ فوج پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس دن وہ کہاں تھی؟ کیوں نہیں احتجاجیوں کو روکا گیا؟ اور جب شرپسندوں کو ایجنسیوں نے پکڑا تب بھی یہ لوگ شکایت کرنے لگے!) بنگلہ دیش میں ایسا نہیں کیا گیا۔ وہاں فوج اور پولیس نے لوگوں پر، شیخ حسینہ کے کہنے پر، گولیاں چلائیں۔ وہ لوگ جو فوج کو سیاستدانوں کے زیر سایہ اور ان کے قابو میں لانا چاہتے ہیں، یہ جان لیں کہ ہماری فوج بھی اگر سیاستدانوں کے قابو میں ہوتی تو کیا ہوتا؟ بہت سے لوگوں کو پیٹ میں مروڑ ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ ہماری فوج سولین حکومت کے تابع نہیں۔ الٹا سولین حکومت فوج کے تابع ہوتی ہے۔ توذرا سوچیے کہ اگر ہمارے ملک میں فوج سیاستدانوں کے قابو میں آگئی تو کیا ہوگا۔ شیخ حسینہ کی فطرت ہمارے سیاستدانوں کی فطرت سے ملتی جلتی ہے۔ لہذا، فوج کو سولین حکومت کے زیر سایہ نہ لائیں۔ الٹا جو ادارے سیاستدانوں کے قابو میں ہیں، ان کو سیاستدانوں کے قبضے سے چھڑائیے۔ کیونکہ سیاستدانوں نے ان اداروں کا کیا حال کیا ہے، آپ بخوبی جانتے ہیں۔ نہیں جانتے تو کبھی کسی سرکاری دفتر جانا ہوا تو آپ کو معلوم ہوجائے گا۔ فکر نہ کریں!

آخر میں یہی کہوں گا کہ بنگلہ دیش کی صورتحال دیکھ کر جو لو گ بڑے دکھی ہے کہ یہاں ایسا انقلاب کیوں نہیں آیا، تو میرا ان سے کہنا ہے، چند مہینے اور سالوں کی بات ہے، انتظار کیجیے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ایسا انقلاب ہمارے ملک میں نہیں آیا اور آنا بھی نہیں چاہیے۔ انشاء اللہ! ملک میں جتنا امن، سکون اور چین ہے اسے برقرار رکھتے ہوئے، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ کیجیے۔ ایسا نہ ہو جو ہے وہ بھی گنوا بیٹھیں۔

باشام باچانی

Basham Bachani

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔