عین اس وقت جب یہ پی ڈی ایم کی حکومت گھر جارہی تھی اور عمران خان کو جیل گئے دو تین گزرے تھے، "انٹرسیپٹ" نامی ایک انٹرنیٹ ویب سائیٹ نے متنازعہ"سائفر" کا متن شائع کیا، جس کا چرچا تو چودہ پندرہ مہینے سے ہورہا تھا، لیکن وہ سائفر اصل میں ہے کیا اس کا علم لوگوں کو نہیں تھا۔ خیر، اب سائفر کا متن عام ہوچکا ہے، آپ اور میں اچھی طرح جاکر اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ کیا وہ سائفر حقیقت میں وہی کچھ کہہ رہا ہے جو عمران خان اور ان کے حواری پچھلے چودہ پندرہ مہینوں سے کہہ رہے ہیں یا حقیقت کچھ اور ہے؟
ذہن میں رہے کہ یہ مضمون 9 اگست 2023ء میں شائع ہوا اور اس کے دو مصنفین ہیں۔ ایک مصنف گورا ہے جبکہ دوسرا مصنف ایک مرتضی حسین نامی شخص ہے۔ مرتضی حسین کی ٹوئیٹس موجود ہیں جس میں وہ کھلے عام عمران خان کی تعریف کر رہا ہے۔ سائفر کے متن کے علاوہ جو مضمون ہے وہ پڑھ کر آپ کو پتہ چل جائے گا کہ مصنفین کتنے غیر جانبدار ہیں۔ پورا مضمون عمران خان کی معتدد تقریروں کا انگریزی ترجمہ ہے۔
اب آتے ہیں سائفر کے متن کے دو حصوں کی جانب۔ پورے سائفر کا یہاں ذکر کرنا تو محال ہے۔ عموماً وہی باتیں ہیں جو سب کو پتہ ہیں۔ لیکن ایک جگہ ڈونلڈ لو کا بیان درج ہے، جو میں چاہتا ہوں آپ پڑھیں۔ یہ سائفر کا ایک اقتباس ہے جس میں ڈونلڈ لو نے جو کہا اس کا ذکر کیا جارہا ہے:
"یہ ہمیں غیر جانبدار موقف نہیں لگتا"۔
کونسا موقف؟ عمران خان کا موقف کہ وہ عالمی سطح پر پاکستان کو غیر جانبدار بنانا چاہتے ہیں اور کسی بھی عالمی طاقت کے زیر سائع نہیں ہونا چاہتے۔ اب مزید آگے اس متن کا مطالعہ کریں آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ سائفر سے اصل چیز کیا اخذ کی جاسکتی ہے، جس کا ذکر عمران خان اور ان کے حواری نہیں کرتے۔ اوپر درج متن کے بعد لکھا ہے کہ:
"انہوں نے (یعنی کہ ڈونلڈ لو نے) کہا کہ۔۔ یہ بالکل واضح لگتا ہے کہ یہ وزیر اعظم (عمران خان) کی پالیسی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا خیال تھا کہ یہ اسلام آباد کے موجودہ سیاسی ڈراموں سے جڑا ہوا ہے جس کی انہیں (یعنی وزیر اعظم کو) ضرورت ہے اور وہ عوامی چہرہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں"۔
یہ ہے وہ متن جس کا ذکر کیا ہی نہیں جارہا۔ ڈونلڈ لو تو بلکہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان روس کا دورہ اور یہ سارا ڈرامہ کہ "ہم کوئی غلام ہیں!" اس لیے کر رہا ہے کیونکہ اسلام آباد کی فضاؤں میں یہ ہوا گردش کرنے لگی تھی کہ عمران خان کی حکومت کے اب بس چند دن رہ گئے ہیں، لہذا بیانیہ بنانے کا ماہر ہمارا کپتان وزیراعظم یہ سب کچھ اس لیے کر رہا تھا کیونکہ اسے عوامی چہرہ دکھانا تھا، اسے ایک نیا چورن بیچنا تھا کہ دیکھو! میں تو ملک کو آزاد کرنا چاہ رہا تھا، آزاد خارجہ پالیسی دے رہا تھا، لیکن امریکیوں نے میری حکومت گرادی۔
سائفر کے ایک اور مقام پر اسد مجید (پاکستانی سفیر جنہوں نے سائفر بھیجا) ڈونلڈ لو کو کہتے ہیں کہ ہمارے وزیر خارجہ آپ کے سیکرٹری بلنکن صاحب سے فون پر بات کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنا موقف یوکرین تنازعہ پر واضح کریں، لیکن بلنکن صاحب فون ہی نہیں اٹھاتے، جس پر ڈونلڈ لو کا یہ جواب انہیں ملتا ہے:
"ڈون(یعنی ڈونلڈ لو) نے جواب دیا کہ واشنگنٹن میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی انتشار کے پیش نظر اس طرح کی مصروفیات کا یہ مناسب وقت نہیں ہے اور پاکستان کے سیاسی حالات ٹھیک ہونے تک انتظار کیا جاسکتا ہے"۔
یعنی امریکی حکومت بھی اس انتظار میں تھی کہ پہلے سیاسی افراتفری ختم ہوجائے اور پھر دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اگر حکومت گرانی ہوتی یا اس کے لیے مدد دینی ہوتی تو ایسا بیان تو بالکل نہیں آنا تھا۔ سیدھا جواب آنا تھا کہ پہلے اس وزیر اعظم کو ہٹاؤ، پھر بات ہوگی۔
پورے سائفر میں امریکی ڈونلڈ لو صرف یہ کہہ رہا ہے کہ بھئی! آپ کا وزیر اعظم اکیلے ایسے فیصلے لے رہا ہے جس سے پوری قوم مسئلے میں پڑ جائے گی۔ لیکن ہم ان کی وجہ سے پوری قوم کو سزا نہیں دیں گے، اگر یہ پاگل وزیر اعظم گیا تو معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ ہم پوری قوم کو عمران خان کی گستاخی کی سزا نہیں دیں گے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان اکیلے یہ سب اس لیے کر رہا ہے کیونکہ اب اسے اقتدار جاتا نظر آرہا ہے، اور لوگوں کو اپنے طرف متوجہ کرنے کے لیے، جیسے کہ ڈونلڈ لو نے کہاکہ عوامی چہرہ دکھا رہا ہے۔ ساڑھے تین سال آزاد خارجہ پالیسی کی جنگ کیوں نہیں لڑی گئی؟ یہ اچانک تب کیوں کیا گیا جب کرسی کھسکتی نظر آئی؟
جب آپ بینک سے گاڑی بھی نکلواتے ہو تو آپ آزاد گاڑی کے مالک نہیں۔ اگر آپ گاڑی بیچنا چاہتے ہیں تو پہلے بینک کی رقم ادا کرنی ہوتی ہے مکمل جو آپ پر واجب ہوتی ہے۔ جب تک گاڑی آپ کے پاس ہوتی ہے اس کے دستاویزات بینک رکھتی ہے اپنے پاس۔ آپ کو زبردستی بیمہ کرانی پڑتی ہے گاڑی کی۔ ورنہ بینک آپ کو گاڑی نہیں دے گی۔ آپ کسی صورت یہ نہیں کہہ سکتے بینک والوں کو کہ "ہم کوئی غلام ہیں؟ کہ بیمہ پالیسی کرائیں گاڑی کے لیے، بیعانہ دیں اور دستاویزات بھی تمہاری تحویل میں دیں؟" جی بالکل!کیونکہ آپ مقروض ہیں، اتنے غیرت مند ہیں تو پہلے قرض چکا دیں، پھر جو کرنا ہے کریں۔
یہاں ہمارا سابق جاہل وزیر اعظم، جو ایک مقروض ملک کا سربراہ تھا، جو خود امداد اور قرضے مغرب، امریکا اور آئی ایم ایف سے حاصل کرکے ملک چلاتا رہا، وہ جب کہتا ہے کہ ہم آزاد ہوانے چاہییں اپنی پالیسی میں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بندے میں دو ٹکے کی بھی عقل نہیں۔ آپ کا ملک مغرب، امریکا اور آئی ایم ایف کی امدادوں اور قرضوں پر چلتا ہے۔ آپ کی اکثر برآمدات امریکا اور یورپ کو جاتی ہیں جس سے آپ بیرونی کرنسی کماتے ہو تھوڑی بہت تاکہ قرض والے اس کےآسرے پر آپ کو قرض دیں۔ انہیں ملکوں سے سرمایہ آپ کے ملک میں لگے تو آپ کو ڈالر ملتے ہیں جس کے ذریعے آپ عالمی منڈی سے تیل، ہتھیار، دوائیں وغیرہ خردیتے ہو۔ حتی کہ مشکل وقت آنے پر یوتھیے اور عمرانڈو ادھر ہی بھاگتے ہیں۔ وہ روس نہیں بھاگتے۔ وہ جو ڈالر کما رہے ہیں یوٹیوب کے ذریعے وہ امریکا کی وجہ سے ہے۔ ورنہ آپ کو لگتا ہے کہ روس یوٹیوب کا کوئی متبادل آپ کو فراہم کرسکتا ہے؟
یہ سب جانتے ہوئے کہ آپ مقروض ہیں، آپ کی کمزور برآمدی صنعتوں کا انحصار مغرب پر ہے، آپ مغرب کے قرضوں کے بغیر دیوالیہ ہیں، آپ جب یہ کہتے ہیں کہ میں ملک کو آزاد کرنا چاہتاہوں، آپ اپنی کم عقلی ثابت کرتے ہیں۔ آزاد کرنا ہے تو پہلے قرضے اتاریں، امداد حاصل کرنا چھوڑیں، اپنی برآمدات اتنی تگڑی بنائیں کہ مغرب کےساتھ ساتھ پوری دنیا میں آپ کا سامان جائے۔
سائفر اگر کچھ ثابت کرتا ہے تو وہ یہ ہے: عمران خان نے امریکا سے پاکستان کے معاملات بہت کشیدہ کردیے تھے۔ جس میں روس کا دورہ صرف ایک پہلو تھا (اور یہ دورہ بھی ٹوپی ڈرامے پر مبنی تھا تاکہ عدم اعتماد سے قبل کچھ دکھایا جائے کہ دیکھو ہمیں اس کام کی سزا دی جارہی ہے)۔ معاملہ کئی سالوں سے بگاڑ کا شکار تھا۔ اگر عمران خان مزید دیر وزیر اعظم رہتے تو ملک تباہ ہوجاتا۔
اگر بالفرض عمران خان کی بات مان لی جائے کہ روس سے مضبوط تعلقات قائم کرکے سستا تیل اور گندم حاصل کیا جاتا، تو کیا امریکا کو دوران (روس یوکرین)جنگ یہ ہضم ہوجاتا؟ آپ کا دفاعی سامان زیادہ تر وہیں سے آتا ہے۔ آپ کے کئی یوٹیوبرز ادھر سے ڈالر کماکر کروڑ پتی بنے ہوئے ہیں، آپ کے کئی طالب علم اور نوکری پیشہ باہر ان کے ممالک میں پڑھتے یا کام کرتے ہیں، اکثر ترسیلات ذر کا تعلق مغرب سے ہے، روس سے نہیں، کیا اکیلے گندم اور تیل سے آپ کو ملک چلانا تھا؟ یاد رہے روس یوکرین کی جنگ کے بعد امریکی حکومت نے روسیوں کے ڈالر منجمد کر لیے تھے۔ اب آپ مجھے بتائیں اگر روس سے اس قسم کے تعلقات کی سزا ہمیں مغرب نے دینی ہوتی تو ہمارا کیا بنتا؟ مغرب آپ کے طالب علموں کو اور پیشہ ور لوگوں کو یہاں واپس بھیجتا، آپ کی امداد اور قرضوں اور ترسیلات ذر کی رقم معطل کرتا، آپ کے ڈالر منجمد کرتا، آپ کی برآمدات پر پابندی لگاتا اپنی منڈیوں میں، تو کیا آپ اکیلے گندم اور تیل سے ملک چلاتے؟ کیا راتوں رات آپ کا برآمدی شعبہ روس کو وہ ساری برآمدات مہیا کرتا جو ویسے مغرب کو کرتا تھا؟ عقل مند کو پتہ ہے کہ جواب کیا ہے۔
یہ یاد رہے کہ اسی حکومت کے دور میں، جس کو عمران خان اور ان کے حواری درآمدی حکومت کہتے ہیں، روس سے تیل پاکستان بھی آجاتا ہے۔ صاف پتہ چل گیا کہ روسی تیل لینے کی وجہ سے عمران خان کو نہیں ہٹایا گیا تھا۔ لیکن یوتھیے اور عمرانڈوز اسی راگ کو الاپ رہے ہیں۔
عمران خان کو بیرونی سازش نے نہیں اقتدار سے بے دخل کیا۔ وہ کئی لوگوں کی بد دعاؤں کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے ان کے ساتھ یہ ہورہا ہے۔
جب آپ بشیر میمن کی پینشن روکوگے، اس کے کاروبار بند کروگے، کیونکہ وہ آپ کی غیر قانونی باتیں نہیں مانتا تھا، جب آپ طیبہ گل کو وزیر اعظم ہاؤس میں قید کرتے ہو تاکہ اس کی وڈیو کے ذریعے نیب کے سربراہ کو آپ زیر دباؤ لاؤ، جب آپ توشہ خانہ کی تفتیش کرنے والے صحافی رانا ابرار کی سترسالہ والدہ کو دھمکاتے ہو، ان کے بھائی پر جھوٹے پرچے کراتے ہو، جب آپ ڈاکٹر دانش، جنہوں نے قبل از اقتدار آپ کی مدد کی، انہیں دو چینلوں سے فارغ کراتے ہو، جب آپ محسن بیگ، جنہوں نے اربوں روپے آپ کی جھولی میں ڈالے، جو حقیقت میں آپ کے محسن ہیں، ان کو گرفتار کراتے ہو اور پولیس سے تشدد کرواتے ہو، جب آپ جہانگیر ترین اور علیم خان کو، جنہوں نے پوری دولت آپ کے لیے نچھاور کی، ان پر جھوٹے مقدمات بناتے ہو، ان کے کاروبار متاثر کراتے ہو، ان کے کھاتے منجمد کرتے ہو، تو آپ کو اور کیا لگتا ہے کہ کیا ہونا چاہیے تھا آپ کے ساتھ؟
بیرونی سازش نہیں۔۔ اسے کہتے ہیں مکافات عمل!