انسان تب شکر کرتا ہے جب وہ یہ نہ دیکھے کہ دوسروں کے پاس کیا ہے۔ جب انسان یہ سوچے کہ اس کے پاس کیا ہے، اور وہ چیز کتنے لوگوں کے پاس نہیں۔ انسان جب یہ سوچنے لگے کہ اس کے پاس کتنی چیزیں ہیں جو اسے بغیر محنت کے مل گئیں۔ لیکن جب ہم صرف یہ دیکھنا شروع ہوجائیں کہ دوسروں کے پاس کیا ہے تو پھر ہم اپنی زندگی تباہ کردیتے ہیں۔ یہ عادت آپ کو پاکستان کے دانشوروں، سیاستدانوں (جب وہ حکومت کے بجائے اپوزیشن میں شامل ہوں)، صحافیوں، اور بالخصوص عوام میں نمایاں ملے گی۔ دن رات دوسرے ملکوں کے سربراہان، افسران، پولیس، وغیرہ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ کبھی ہمیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے ملک میں بھی اچھائیاں ڈھونڈ لیں۔ بے شک ہمارے ملک میں بہت کم افسران، سیاستدان، تاجر، وغیرہ ایسے ہیں جو ایماندار ہیں لیکن ہیں ضرور۔ (فی الحال میرے پاس وقت نہیں کہ میں اُن لوگوں کا یہاں ذکر کروں—انشاء اللہ! اگلی بار۔) انفرادی طور پر بھی ہم کسی سے کم نہیں۔ دوسروں کے پاس کیا ہے اسی پر ہماری نظریں جمی رہتی ہیں۔
"یا رسول اللہ!" حضرت حارث بن مالک رضی اللہ عنہ نے رسول پاک ﷺ سے عرض کیا۔ "جیسے مشرکوں کا ذات انواط ہے، ہمارے واسطے بھی ایک ذات انواط مقرر فرمائیے۔ "ذات انواط وہ درخت ہے جس کی کافر بڑی قدر کیا کرتے تھے۔ وہ اس درخت کے پاس ہر سال ایک بار آتے، اُس درخت کی زیارت کرتے، قربانیاں دیتے وغیرہ۔ جب حضور ﷺنے حارث بن مالک سے یہ الفاظ سنے، تو فرمایا: "تم نے بڑی سخت بات کہی۔ ایسی ہی بات موسی کی قوم نے موسی سے کہی تھی کہ اے موسی! جیسےبت پرستوں کے معبود بت ہیں تم بھی ہمارے واسطے ایسے ہی معبود مقرر کردو۔ موسی نے فرمایا:تم لوگ بڑے جاہل ہو۔ (7:138)" (ص 432-431، سیرت ابن ہشام، جلد دوم، مترجمین:مولوی قطب الدین احمد اور سید یسین علی حسنی نظامی دہلوی، ناشر:مکتبہ رحمانیہ) حضرت حارث رضی اللہ عنہ کیونکہ اس وقت نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، اس لیے انہیں اس بات کا علم نہیں تھا۔ ایک مسلم کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ دوسروں اور بالخصوص کافروں کی دولت پر اپنی نظر جمائے۔ ایک مسلم کو تو قرآن پاک کے ذریعے یہ ہدایت ملتی ہے: "آپ ہر گز اپنی آنکھیں نہ بڑھائیں (ان چیزوں کی) طرف جو ہم نے اُن کے کئی جوڑوں (گروہوں)کو دیں، اور اُن پر غم نہ کھائیں۔ " (15:88)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر غیر مسلموں میں کوئی اچھائی پائی جاتی ہے تو اُس پر غور نہ کریں۔ بسم اللہ!ضرور دوسرے ملکوں سے، دوسری قوموں سے سیکھیں۔ لیکن ہمارے یہاں دوسروں ملکوں کی مثال اس لیے دی جاتی ہے تاکہ ہم اپنے ملک اور ہم وطنوں کو نیچا دکھائیں۔ ہم احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ فرنگیوں کے پاس بہترین گاڑیاں ہیں، بہترین بنگلوں میں وہ رہتے ہیں۔ ۔ ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ انہوں نے یہ سب کیسے حاصل کیا۔ یہ میرے بچپن کا واقعہ ہے:میں اور میرا دوست، ہم دونوں بریک ٹائم میں کچرا اٹھاتے اور پھر ڈسٹ بن میں ڈال دیتے۔ معلوم نہیں کیوں ہمارے اندر یہ جذبہ پیدا ہوا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے تھے کہ کون زیادہ کچرا جما کرکے ڈسٹ بن میں ڈالے گا۔ خیر، ایک دن ہمیں ہمارےدوسرے کسی دوست نے کہا: "ہر کوئی تم لوگوں کا مذاق اڑا رہا ہے۔ سب کہہ رہے ہیں کہ تم لوگ سویپر ہو۔" اس کے بعد ہم نے یہ عمل چھوڑ دیا۔ حالانکہ جن ملکوں، قوموں سے ہم متاثر ہیں، وہاں اسکولوں اور کالجوں میں سویپر موجود ہی نہیں ہوتے۔ طالب علم خود صفائی کرتے ہیں۔ لیکن ہم تو صرف اُن لوگوں کی دولت اور مال پر نظر رکھتے ہیں۔ ابھی چند مہینے پہلے میرے ایک دوست معذرت!وہ میرے جاننے والے ہیں، میں انہیں اپنا دوست نہیں سمجھتا مجھے اپنی سمارٹ فون کے ذریعے ایک وڈیو دکھارہے تھے۔ وڈیو میں امریکا کے بانی، جورج واشنگٹن، کا باورچی خانہ دکھایا گیا تھا۔ خیر، اس وقت میں اتفاقاً 1776 نامی کتاب کا طالعہ کر رہا تھا۔ یہ کتاب امریکا کے مشہور مصنف ڈیوڈ مکلو نے لکھی ہے۔ کتاب میں اُس جنگ کا ذکر ہے جس کے ذریعے امریکا نے برطانوی سامراجیت سے آزادی حاصل کی۔ کتاب کے پہلے صفحے پر جورج واشنگٹن کا قول درج ہے: "محنت اور جذبے نے ہر دور میں کمال کر دکھایا ہے۔" یہ میں نے اپنے اسی جاننے والے کو دکھایا جو مجھے واشنگٹن کا باورچی خانہ دکھا رہا تھا۔ کہنے لگا: "یہ دقیانوسی باتیں!کیا فائدہ اِن کا!" کیونکہ موصوف بدتمیز ہیں، اس لیے میں نے خاموش رہنا بہتر سمجھا۔
تو لوگو!جو ہے آپ کے پاس اس کی قدر کریں۔ دوسروں کے پاس کیا ہے، اس سے لاتعلق ہوجائیں۔ مجھے تو میرے نبی نے یہی سکھایا ہے۔ آگے آپ کی مرضی۔ میرا کام تھا پیغام پہنچانا، تو وہ میں پہنچادیا۔
(ختم)