1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. باشام باچانی/
  4. فتنہ یا فرشتہ (1)

فتنہ یا فرشتہ (1)

عمران خان کے پرانے انٹرویوز اٹھائیں اور دیکھیں انہوں نے کن باتوں کو استعمال کرکے اپنی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ بڑے بڑے دعوے انہوں نے کیے تھے۔ ملک میں 90 دنوں میں بدعنوانی کا خاتمہ۔ تعلیم اور روزگار کے حصول کے لیے لوگ پاکستان آئیں گے۔ پولیس کو غیر جانبدار کیا جائے گا۔ ملک کی تجوری کو ذاتی اغراض کے لیے لوٹا نہیں جائے گا۔ میرٹ پر بھرتیاں کی جائیں گی۔۔ خیر فہرست بہت لمبی ہے۔ لیکن چلیں چند بنیادی باتوں کو ہم سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں کہ عمران خان کتنے کامیاب ہوئے اور کتنے ناکام۔

سب سے پہلے میرٹ پر بھرتیوں کے معاملے پر گفتگو کرتے ہیں۔ اسد قیصر صاحب جو کہ عمران خان صاحب کے دور میں قومی اسمبلی کے اسپیکر تھے، پتہ یہ چلا کہ جب وہ گئے تو میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کئی غیر قانونی بھرتیاں کر گئے۔ حتی کہ اپنے بہنوئی کو بھی انہوں نے ترقی دے کر قومی اسمبلی میں بھرتی کیا۔ قریب 200 لوگوں کو انہوں نے ترقی دی جو کہ ان کے حلقے سے تھے۔ ایک بندے کو تو انہوں نے 19 لاکھ روپے ماہانہ تنخوا پر بھی بھرتی کیا۔ سبحان اللہ!یہ اگر میرٹ ہے تو پہلے کیا ہورہا تھا ملک میں؟

اب آتے ہیں پولیس کی غیر جانبداری پر۔ وفاق میں تو چلیں عمران خان صاحب محض 4 سال برسراقتدار رہے۔ لیکن صوبہ کے پی میں تو ان کی جماعت 9 سالوں سے حکومت کر رہی ہے۔ وہاں پولیس کتنی غیر جانبدار ہے؟ اس کا اندزہ آپ اس بات سے لگائے، عمران خان صاحب نے پچھلے ہفتے کوہاٹ میں جلسے کے دوران شہریار آفریدی کے انتظامات پر مایوسی کا اظہار کیا۔ کہا کہ لائٹنگ کا انتظام صحیح نہیں کیا گیا۔ کچھ بتیاں نہیں چل رہی تھیں۔ جس کی وجہ سے پوری جلسےکی آبادی ظاہر نہیں ہورہی تھی۔

اگلے ہی دن پتہ یہ چلا کہ جس بندے کو جلسے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا ا سے کوہاٹ پولیس گرفتا ر کرکے لے گئی۔ وہ بیچارہ کہتا ہے کہ میرا کیا قصور؟ وہ تو طوفان کی وجہ سے کچھ بتیاں خراب ہوگئیں۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ شہریار آفریدی کے کہنے پر پولیس نے یہ کاروائی کی۔ واہ رے واہ!نیا پاکستان!ساتھ ساتھ ٹھیکے دار کا یہ بھی دعوہ ہے کہ شہریار آفریدی نے اس کے 35 لاکھ دینے ہیں۔ سبحان اللہ!یہ ہے غیر جانبدار پولیس!آپ جلسے میں لائیٹنک کے انتظامات پر ناراضگی ظاہر کریں اور پولیس دوسرے ہی دن ٹھیکے دار کو پکڑلے۔ ایسی پولیس ہونی چاہیے ایمان سے!

پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ عمران خان نے دعوہ کیا تھا کہ میں اقتدار میں آتے ہی 90 دن میں بدعنوانی کا خاتمہ کردوں گا۔ جب اقتدار ملا تو کہنے لگے میں اکیلا نہیں ختم کرسکتا بدعنوانی کو۔ لوگوں کو بھی کچھ کردار ادا کرنا ہوگا۔ حیرانی کی بات ہے۔ کیا انہیں پہلے اس ملک کی سیاست اور سماج کے حوالے سے علم نہیں تھا؟ وہ انگوٹھا چوسنے والے چھوٹے بچے تھے؟ اتنا بڑا دعوہ کرنے کی کیا ضرورت تھی جس کو آپ پورا بھی نہیں کرسکتے۔ خیر 90 دن میں بدعنوانی کا تو خاتمہ تو نہ ہوا، البتہ ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں عمران خان کے دور میں بد عنوانی کی شرح بڑھ گئی۔

اصولاً تو عمران خان صاحب کو اسی وقت استعفی دے کر گھر چلے جانا چاہیے تھا۔ یہ کہہ کر کہ میں اپنے بنیادی وعدے پر پورا نہیں اترا۔ کیونکہ اقتدار حاصل کرنے سے پہلے وہ مغربی ملکوں کی مثا ل دے کر ہمیں بتاتے تھے کہ دیکھو وہاں چھوٹا واقعہ بھی ہوتا ہے تو وزیر استعفی دے دیتا ہے۔ لیکن خیر عمران خان صاحب کی شخصیت کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ وہ شاز و نادر ہی معافی مانگتے ہیں یا اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں۔ جب ان سے فراح خان، ان کی اہلیہ بشری بی بی کی سہیلی کے بارے میں پوچھا گیا کہ ان کے اثاثوں میں پی ٹی آئی حکومت میں 4 گنا اضافہ کیسے ہوا؟ تو عمران خان صاحب نے کہا کہ میرے دور میں رئیل اسٹیٹ میں اتنی ترقی ہوئی کہ پوچھیں ہی نہ۔ ان کے اثاثے تو میرٹ کی بنیاد پر بڑھے۔ واہ!کیا بات ہے!

بدعنوانی کا معاملہ صرف ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کی رپورٹ اور فراح خان پر ختم نہیں ہوتا(ویسے تو بی آر ٹی پشاور کا ذکر بھی کرتا لیکن وقت نہیں)۔ جونہی عمران خان صاحب کو وزارت عظمی سے بذریعہ عدم اعتماد ہٹایا گیا تو پتہ یہ چلا کہ انہوں نے توشہ خانے سے ملکی تحائف جو دوسرے ملکوں کے سربراہان نے پاکستان کو دیے ان کو بیچ کھایا۔ اور جو رقم حاصل کی اس کو ذاتی کام کے لیے استعمال کیا۔ تحائف کی قیمت 14 کروڑ ہے اور عمران خان صاحب نے صرف 4کروڑ کے قریب رقم ادا کرکے تحائف خریدے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے 50٪ رقم ادا کی، اب میری ریاضی میں کوئی خامی ہے یا کیا۔۔ لیکن میں کیلکولیٹر سے بار بار دیکھ رہا ہوں، 14 کا 50٪ تو 7 ہے۔

خیر نیا پاکستان ہے تو ریاضی بھی نئی ہے!تحائف حاصل کرنے کے بعد عمران خان صاحب نے انہیں دبئی میں بیچ دیا۔ ایک منٹ! ایک منٹ!یاد ہے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کئی بار خان صاحب کہتے تھے کہ میں اپنے خرچے بہت مشکل سے چلا رہا ہوں۔ اچانک ان کے پاس 4 کروڑ کہاں سے آئے پھر؟ اور یہ سب جب وہ ملک پر حکمرانی کر رہے تھے کیوں نہیں عیاں کیا گیا؟ جس بندے نے شفافیت کو دارومدار بنایا ہو اپنی انتخابی مہم کا، اسے یہ سب اس وقت قوم کے سامنے رکھنا چاہیے تھا نا کہ میں دیکھو یہ یہ تحفے خرید کر بیچ رہا ہوں۔ اب یہ سارے معاملات کیوں سامنے آرہے ہیں؟ خیر عمران خان صاحب اتنے بیوقوف تو نہیں کہ اس وقت بتاتے۔ جیب گرم کرنی تھی نا یار!سمجھا کرو تم!

اب کسی ایک بنیادی وعدے پر بھی عمران خان پورے نہیں اترے۔ بلکہ انہوں نے مزید ملک کو تباہ کر ڈالا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس منہ سے کہہ رہے ہیں کہ میرے ساتھ کھڑے ہوجاؤ، کیونکہ حق اور باطل کی جنگ میں میں حق پر کھڑا ہوں۔ (یاد رہے عمران خان صاحب خود طے کریں گے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر!)ریاست مدینہ اور سیرت نبوی ﷺکا درس دینے والے کو یہ تک نہیں پتہ کہ رسول اللہﷺنے سختی سے حاکم کے خلاف بغاوت کرنے سے منع فرمایا۔

باشام باچانی

Basham Bachani

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔