ہم بحث کر رہے تھے کہ مکافات عمل نام کی کوئی چیز نہیں۔ میں اس وقت بارہویں جماعت میں تھا۔ کالج کا آخری سال تھا اور ہم اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان تھے۔ میرے دوست کہہ رہے تھے کہ جو غلط کرتا ہے اس کے ساتھ اچھا ہوتا ہے، جبکہ اچھائی کرنے والا ہمیشہ پیستا رہتا ہے۔ طبعیات کا پیریڈ تھا، ہمارے ٹیچر بلیک بورڈ پر لکھنے میں مصروف تھے۔ البتہ ساتھ ساتھ وہ ہمارے ساری گفتگو سن رہے تھے۔ ایک استاد اپنے شاگردوں کے حوالے سے باخبر نہ ہو، بھلا ایسا ہوسکتا ہے؟ خیر، میرے دوستوں کی یہ رائے سنتے ہی انہوں نے بلیک بورڈ پر لکھنے کے عمل کو فی الوقت منقطع کیا۔ بولے۔"بیٹا!پھر آپ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے۔"وہ جب بھی کچھ فرماتے تھے، ہمیں سننے میں بڑا لطف حاصل ہوتا تھا۔ کہنے لگے۔"اگر تم لوگوں کی بات درست ہے، تو (نعوذباللہ!) اللہ نہ سمیع ہے، نہ علیم۔ پھر تو یہ کائنات بس ایسے ہی اندھے دھند چل رہی ہے۔"
اس وقت ان کی بات سمجھ تو آئی لیکن میرے علم کی کمی کے باعث اس کی تشریح نہ ہو پائی۔ خیر، آج جب میں ہر کسی کو دیکھتا ہوں، تو بخوبی نظر آرہا ہے کہ ان کی بات سچ تھی۔ جو ہم بوتے ہیں وہی ہم کاٹتے ہیں۔ بظاہر ایک اچھے انسان کو تکلیف میں دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ اس کے ساتھ برا ہورہا ہے۔ لیکن ذرا سوچئے، جو ورزش کرتا ہےاسے تکلیف نہیں ہوتی؟ کیا اسے ابتدا میں درد نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جو ورزش نہیں کرتا وہ آرام میں ہے۔ یہی معاملہ مطالعے کا بھی ہے اور عبادت کا بھی۔ جو مطالعے اور عبادت کو وقت دیتا ہے، اسے بھی تو کسی نہ کسی تکلیف کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو اپنے آرام کو تو فی الوقت خیر باد کہنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ایک مومن کی ورزش ہے تکلیف اور دشواری۔ اور جیسے کہ سورۃ الم نشرح (آیت 5تا6) میں فرمایا گیا ہے، "پس، بے شک!مشکل کے ساتھ ہے آسانی۔ بے شک!مشکل کے ساتھ ہے آسانی۔"(مشکل سے مت دور بھاگ میرےدوست!وہی ہے تیری آسانی کی کنجی۔)
اپنے اسی ٹیچر سے میں نے یہ بھی سیکھا کہ۔۔۔ میں یہاں خاموش رہتا ہوں، انہیں بولنے کا موقع دیتا ہوں۔ ایک بار بلیک بورڈ پرایک گول دائرہ بنا کر ہم سے فرمانے لگے۔"دیکھو بیٹا!جو گناہ کرچکے، جن برائیوں میں ملوث ہوچکے، اب اس سے بچنا تو مشکل ہے۔ ایک بار کوئی بری عادت آپ کے پاس جگہ بنا لے، وہ آپ کی جان نہیں چھوڑتی۔ لیکن جن برائیوں اور علتوں میں ابھی نہیں لگے، ان سے تو پرہیز کرنا آسان ہے۔ جس نے شراب چکھی ہی نہیں، اسے کیا معلوم شراب میں کیا لطف حاصل ہوتا ہے۔ وہ باآسانی شراب سے بچ سکتا ہے۔ لیکن جس نے اس کے ذائقے کو ایک بار چکھ لیا، پھر شراب کو اپنی زندگی میں جگہ بنانے کی اجازت دے دی، وہ مارا گیا۔ اب وہ نشہ اور مزا اسے کبھی بھی شراب کو چھوڑنے نہیں دے گا۔ اس لیے کم از کم اپنے گناہوں کو محدود کر لو۔ جتنے ہوچکے سو ہوچکے۔ مزید اضافہ نہ کرو۔ اور یہ کرنا آسان ہے۔"
یقین مانیے میں ایک گناہ گار شخص ہوں۔ بہت گناہ کیے ہیں میں نے۔ لیکن اس تعلیم کی وجہ سے میں مزید گناہوں سے بچ گیا۔ جب بھی کوئی دوست سگریٹ پکڑاتا، میں سوچتا۔"آج تو میں محض ایک کش لگاؤں گا۔ کل پوری سگریٹ پی جاؤں گا۔ پھر آہستہ آہستہ عادت جنم لے لے گی۔ پھر مجھے پچھتاوا ہوگا۔ پھر میں سگریٹ سے بچنے کی کوشش کروں گا۔ البتہ ہر بار سگریٹ کی علت مجھے اس کے پاس واپس لے جائے گی۔ اس سے اچھا میں اسے چکھوں ہی نہیں۔ نہ ہوگا بانس، نہ بجے گی بانسری۔"
انہی استاد محترم سے مجھے یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ انسان جہاں بھی کام کرے، وہاں وہ اپنا ایسا مقام بنائے کہ اس کے جانے کے بعد اسے لوگ یاد کریں۔ اگر آپ کے جانے کے بعد آپ کو کوئی یاد نہیں کرتا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔ میں نے ایک سال پہلے کورونا کی آمد سے تین چار مہینے پہلے ایک اہم ملازمت کو خیر باد کہا۔ (میں ایک کالج کا پرنسپل تھا۔) وجہ یہ تھی کہ ادارے کا کرتا دھرتا (اور مالک) مجھ سے مطمئن نہیں تھا۔ ہر دن مجھ سے کہتا تھا کہ تم ناکارہ ہو، نا اہل ہو۔ خیر، ادارہ چھوڑتے ہوئے مجھے لگا کہ میں شاید سچ میں ناکام ہوں۔ نااہل ہوں۔ کسی کام کا نہیں ہوں۔ لیکن، الحمد اللہ!، جیسے میں نے ملازمت چھوڑی، مجھے بہت سے اساتذہ نے پیغام پہنچایا کہ آپ واپس آئیے۔ حالات کالج کے بہت بگڑ گئے ہیں۔ کسی نے کہا آپ بس ایک چکر لگا جائیے۔ یقین مانیے، ان پیغامات کو موصول کرتے ہوئے سب سے پہلے تو میں نے اپنے رب کا شکر کیا، پھر اطمینان حاصل کیا کہ میں ناکام نہیں تھا۔ خیر یہ تو میرے رب کا فضل ہے۔
جس استاد کا میں یہاں ذکر کر رہا ہوں اس کا نام ہے سر عدنان۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ یہ ایسی باتیں تھیں جو انہوں نے سب کے سامنے بیان کیں۔ کتنے لوگوں نے میری طرح ان کی باتوں سے فائدہ اٹھایا؟ میں نہیں جانتا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ان کی ان نصیحتوں سے میری زندگی بدل گئی۔ یہ باتیں اگر میں نہ سنتا، اور انہیں اپنے دل میں جگہ نہ دیتا، تو شاید میں وہ مقام نہ پاتا جہاں میں آج کھڑا ہوں۔
اب میں اپنی دسویں جماعت کی آپ کو سیر کراتا ہوں۔ چھٹیوں کے بعد اسکول کا پہلا دن تھا۔ اور آپ کو معلوم ہے، پہلے دن پڑھائی ہوتی نہیں۔ تعارف ہوتا ہے، مضمون کے بارے میں سر سری سی معلومات دی جاتی ہیں، وغیرہ، وغیرہ۔ خیر ہم گفتگو کرنے لگے کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے۔ کسی نے تو یہ کہا کہ انگریز کا دور اچھا تھا۔ وہ کم از کم بدعنوان تو نہیں تھا۔ بہت سے کہہ رہے تھے کہ اس ملک میں رہنے کا کیا فائدہ؟ اتفاقاً اس وقت انگریزی کا ہی پیریڈ چل رہا تھا۔ سر طارق، جو اس وقت ہمیں انگریزی پڑھا رہے تھے، کہنے لگے۔"اگر یہاں ہر رستے پر پتھر موجود ہے، ہر جگہ کوئی نہ کوئی برائی ہے، تو یاد رکھیے اللہ نے آپ کو زیادہ نیکی کمانے کا موقع دیا ہے۔ جہاں زیادہ مسائل نہیں، وہاں زیادہ نیکی کی گنجائش بھی نہیں۔ آپ کو تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔"میں نے جب پتھر والی اور نیکی والی بات سنی، تو میرے سوچنے کا زاویہ ہی تبدیل ہوگیا۔ ہم کتنی شکایت کرتے ہیں اپنے ملک سے۔ جب کہ ملک بیچارہ تو کوئی انسان نہیں۔ ہم اسے اچھا یا برا بناتے ہیں۔ جب ہم ملک سے شکوہ کرتے ہیں تو دراصل ہم اپنے آپ سے شکوہ کرتے ہیں۔ (وہ الگ بات ہے کہ کوئی اس تکبر کا شکار ہو کہ وہ تو صحیح ہے، باقی سارا معاشرہ غلط ہے، تو الگ بات ہوجائے گی۔ ایسا شخص نفسیاتی ہے۔ اسے اپنے آپ پر کچھ زیادہ ہی غرور ہے۔)
تو دوستو! میرے پاس وقت کم ہے، لیکن ایسے اساتذہ اور ان کی دانش کے موتی بے شمار۔ فی الوقت کے لیے اتنا کافی ہے۔ میں نے سوچا میں نے جو حاصل کیا ہے وہ آپ تک پہنچاؤں۔ باقی آپ کی مرضی۔ مجھے اجازت دیجیے۔ اللہ حافظ!