"کہو:بے شک جس موت سے تم بھاگ رہے ہو، وہ ضرور تم سے ملاقات کرے گی۔ پھر تم لوٹائے جاؤ گے اس کے پاس جو غیب کا علم رکھتا ہے اور شاہد ہے:وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کرتے تھے۔"(سورۃ جمعہ، آیت 8)کس قدر درست بات فرمائی گئی ہے۔ آئیے، اس آیت کو واضح کرنے والی دو کہانیاں ہم ملاحظہ کرتے ہیں۔ بڑی دلچسپ کہانیاں ہیں اور سبق آموز بھی۔
ذر ا سوچئے، ایک شخص کو فوجی عدالت سزائےموت سنا دیتی ہے۔ وہ شخص ایک بہت ہی مشہور عالمِ دین ہے، ساتھ ساتھ وہ ایک محقق بھی ہے اور عمدہ تحریروں کا مصنف بھی۔ اور اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اور اس شخص کی حکمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جب اسے جیل ہوئی اور فرصت کے لمحات میسر آئے، تو اس نے وہ وقت اللہ کی آخری کتاب(قرآن پاک) کی تشریح لکھنے میں صرف کر ڈالا۔ باہر اس شخص کو مصروفیات نےاس قدر گھیرےرکھا کہ وہ یہ کام نہ کرپایا۔ دیکھیے اس نے قید کے لمحات کا استعمال کس طرح کیا۔ اور یہ نہ سمجھیے کہ وہ اس دوران جسمانی تکلیف کا شکار نہ تھا۔ وہ شخص فرماتا ہے کہ"جب1953ء میں مجھے گرفتار کیا گیا تو میری دونوں پنڈلیاں کئی مہینے سے داد کی سخت تکلیف میں مبتلا تھیں۔۔۔ گرفتاری کے بعد میں نے اللہ تعالی سے پھر وہی دعا کی جو 1948ءمیں کی تھی، اور کسی علاج اور دوا کے بغیر پنڈلیاں داد سے بالکل صاف ہوگئیں۔"وہ کونسی دعا تھی جو اس نے 1948ء میں اللہ تعالی سے کی؟ ہوا یوں کہ موصوف کو 1948ء میں نظر بند کیا گیا۔ موصوف فرماتے ہیں کہ "ایک پتھری میرے مثانے میں آکر اڑ گئی اور 16 گھنٹے پیشاپ بند رہا۔ میں نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ میں ظالموں سے علاج کی درخواست نہیں کرنا چاہتا، تو ہی میرا علاج فرمادے۔ چنانچہ وہ پتھری پیشاپ کے راستے سے ہٹ گئی اور 20 برس تک ہٹی رہی، اور یہاں تک کہ 1968ء میں اس نے پھر تکلیف دی اور اس کو آپریشن کرکے نکالا گیا۔"اب یہ تو اللہ تعالی پر ہے، یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے چنے ہوئےبندوں کو کس طرح آزمائش میں ڈال کر پھر نجات دیتا ہے۔ تو دوستو!ہم جس شخص کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں اس کا سینہ توکل علی اللہ کی نعمت سے پرنورہے۔ وہ نہایت ہی نڈر شخص ہے۔
اس کی دلیری کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس نے سزا ئے موت پانے کے بعد رحم کی اپیل کرنے سے گریز کیا—حالانکہ اسے یہ حق حاصل تھا۔ اس شخص کے رفقاء جب اس سے ملنے قید خانے آئے اور دیکھا کہ اس نے وہ لباس پہن رکھا ہے جو سزائےموت کے قیدی کو پہناتے ہیں، تو اس کے ایک رفیق سے رہا نہ گیا، وہ بولا"مولانا!اب کیا ہوگا؟ "چلیں یہ راز تو کھلا کہ میں ایک مولانا کی کہانی سنا رہا ہوں۔ ورنہ میں جس طرح کہانی کو کھینچ رہا ہوں آپ ضرور سوچ رہے ہونگے کہ بھئی!نام تو بتاؤ —کہے جارہے ہو، کہے جارہے ہو "ایک شخص ہے۔"ہے کون وہ شخص؟ تو فی الحال صرف یہ جان لیجیے کہ وہ ایک مولانا تھے۔ خیر کہانی کی جانب واپس لوٹتے ہیں۔ مولانا نے اپنے ہمدرد سے فرمایا:
"اللہ مجھے زندہ رکھنا چاہتے ہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت مجھ سے زندگی نہیں چھین سکتی اور اگر میرا وقت آن پہنچا ہے، تو کوئی شخص مجھے زندگی نہیں دے سکتا۔ اس میں بھلا گھبرانے کی کیا بات ہے؟ "
اور پھر آگے کیا ہوا؟ کیا مولانا کو پھانسی دے دی گئی؟ ہوا یوں کہ مولانا کی بات سو فیصد درست نکلی۔
میں جس شخص کا یہاں ذکر کر رہا ہوں اس کانام ہے سید ابوالا علی مودودی۔ جی ہاں، تفہیم القرآن جیسی شاہکار تفسیرکے مصنف؛انکی علمی خدمات اتنی ہیں کہ ان کا ذکر یہاں کرنا مہال ہے۔ انہوں نے جتنی کتابیں لکھیں وہ سب کی سب آج بھی بازار میں موجود ہیں اور طالب علموں کی علمی پیاس کو بجھا رہی ہیں۔ پھر وہ ایک حقیقی جمہوری، اسلامی اور سیاسی تنظیم کے بانی بھی تھے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ بہت کم سیاسی تنظیمیں ایسی ہیں کہ جو اقرباپروری اور خاندانی سربراہی سے پاک ہیں۔ خیر، مولانا کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ہم ان کے مرتبے کو تو نہیں پہنچ سکتے، البتہ ان کی شخصیت سے کچھ سیکھنےکو مل جائے تو اس سے ان مرحوم کی روح کو بھی تسکین ملے گی اور ہمیں بھی کچھ ثواب کمانے کا موقع مل جائے گا۔ ہم واپس کہانی کی جانب لوٹتے ہیں۔
جی نہیں، مولانا کو پھانسی نہ ہوئی بلکہ ان کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی گئی۔ یہ اس لئے ہوا کہ مولانا کی تصانیف صرف یہاں ( یعنی پاکستان )میں عام نہ تھیں، بلکہ مولانا کے قلم نے دریا پار مختلف ممالک کی سیر کی ہوئی تھی—اور آج بھی ان کی رحلت کے اتنے سالوں بعد انکی قلم کی سیاہی دنیا کے مختلف گوشوں کو دین کی تعلیم سے روشن کررہی ہے۔ لہذا اسلامی دنیا سے شدید احتجاج کے باعث سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔ اور چھبیس مہینوں بعد مولانا کو رہا کردیا گیا۔ وہ رہا کس طرح ہوئے جبکہ انھیں عمر قید کی سزا دی گئی؟ اس پر گفتگو کرنے کاجی تو چاہ رہا، لیکن فی الحال ہم اس کہانی کے سبق پر غور کرتے ہیں۔ سبق؟ اور وہ بھی میں؟ نہیں جی، یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ جلدی سے دوسری کہانی سناتا ہوں۔ شاید میرا کام آسان ہوجائے۔
ایک دوسری شخصیت ہے جو کہ اپنے عمل سےمولانا کے جملے کی وضاحت پیش کردیتی ہے۔ ہاں وہ جملہ کہ اللہ نے چاہا تو میں زندہ رہوں گا ورنہ دنیا کی کوئی طاقت مجھے زندہ نہیں رکھ سکتی۔ کاش پاکستان کے چھٹے صدر—اور وہ بھی فوجی—اس بات کو سمجھتے۔ یہاں سے ہم مولانا کی کہانی کو خیر باد کہتے ہیں۔ ایک نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ پچاس کی دہائی چھوڑ کر، ہم سیدھا 1988ء میں چھلانگ لگاتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ صدر ضیاءالحق کے ایک بہت قریبی افسر نے ایک خواب دیکھا۔ پھر انہوں نے اس خواب کا ذکر صدر ضیاءالحق سے بھی کیا۔ خواب یہ تھاکہ 14 اگست کی پرچم کشائی کی تقریب کے دوران صدر ضیاء ایوان ِصدر کی چھٹی منزل پر موجود ہیں۔ اچانک ایک مسلح دستہ ایوانِ صدر میں گھس آتا ہے اور پھر صدر ضیاء تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، اور اس کے بعد سیاہ دھواں ظاہر ہوتا ہے جو کہ صدر ضیاء کو غائب کردیتا ہے۔ البتہ غور کیجیے خواب میں وہ مسلح دستہ یہ کام سر انجام دینے کے بعد واپس بخیریت لوٹ آتا ہے۔ اب اس خواب کے منظر کو ملاحظہ کرنے کے بعد بھلا صدر صاحب کو کیسے نیند آتی؟ وہ آخری دنوں میں — باوجود اس کے کہ وہ فوجی تھے —ڈرڈر کر زندگی گزارنے لگے۔ جس افسر نے یہ خواب انھیں سنایا اس نے تو انھیں یہاں تک مشورہ دیا کہ وہ 14 اگست کی پرچم کشائی کی تقریب کو اُس سال ( یعنی 1988ء) منسوخ کردیں۔ البتہ صدر صاحب نے اس بات کو اہمیت نہ دی۔ وہ بس 14 اگست کے حوالے سے بہت زیادہ محتاط ہوگئے۔ انہوں نے اپنا باہر جانا محدود کردیا۔ انہیں وہ بات کہاں سمجھ آتی جو مولانا نے فرمائی کہ اگر زندگی اللہ نے دینی ہے تو کوئی آپ کو اس سے محروم نہیں کرسکتا۔ بھلا ڈر کر بھی زندگی جی جا سکتی ہے؟ صدر صاحب نے تو ایسی زندگی جی لیکن کم عرصے کےلئے اور اس کا خمیازہ بھی بھگتا۔ اس سال پرچم کشائی کی تقریب اعوان ِصدر کے سامنے جو لان موجود ہے ادھر منعقد کی گئی۔ اس زمانے کے ایک پی ٹی وی کے اعلی افسر فرماتے ہیں کہ ریہرسل کی وجہ سے ایک دن پہلے تیاری کی جارہی تھی (جیسا کہ معمول ہوتا ہے )اور صدر صاحب اچانک اپنے دفتر سے باہر نکل آئے۔ وہ افسر لکھتا ہے:
"ٹی وی کے کیمروں سے صحیح اور واضح منظر کشی کے لئے کیمرہ مین منتظمین سے درخواست کررہے تھے کہ سروکا ایک آدھ درخت جو ان کے کام میں رکاوٹ بن رہا تھا کاٹ دیا جائے لیکن کوئی فیصلہ کرنے کو تیار نہ تھا۔"
وہ افسر مزید لکھتا ہے:
"صدر صاحب کی نظر ٹی وی کی ٹیم پر پڑی تو وہ بھی ادھر آگئے۔ ان کے ذہن میں نہ جانے کیا خیال آیا کہ انھوں نے درخت کے پیچھے کھڑے ہوکر اس جگہ کو دیکھنے کی کوشش کی جہاں تقریب کے دوران انھیں کھڑے ہونا تھا۔ پھر ایک درخت، دو درخت، کئی درختوں کے پیچھے کھڑے ہوکر انھوں نے اسی طرح جائزہ لیا۔ غالباً دیکھ رہے تھے کہ ان درختوں میں سے کسی کے پیچھے چھپ کر تقریب کے دوران ان پر فائر تو نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور پھر انھوں نے حکم دیا کہ سروں کہ سب درخت کاٹ دیے جائیں۔ یوں اس میدان میں موجود چالیس پچاس کے قریب درخت جو اس جگہ کی خوبصورتی کا حصہ تھے کاٹ دیے گئے۔ تقریب بخیر و خوبی ہوگئی۔ کوئی حادثہ نہ ہوا۔۔۔"
ارے واہ!صدر صاحب تو بچ گئے۔ وہ الگ بات ہے کہ میدان میں موجود درختوں کو اکھاڑا گیا۔ لان کی خوبصورتی متاثر ہوئی۔ لیکن صدر صاحب تو بچ گئے نا۔ لیکن لگتا ہے ان درختوں کی بد دعا صدر ضیاء کو لگ گئی۔ یا یوں کہیے کہ مولانا کی بات —کہ اگر اللہ زندہ نہیں رکھنا چاہتا تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو زندگی نہیں بخش سکتی —سو فیصد درست نکلی۔ صدر ضیاء 14 اگست کو تو نہیں، البتہ تین دن بعد 17 اگست کو ایک حادثے کا شکار ہوگئے۔ وہ جس جہاز میں سفر کر رہے تھے وہ کریش ہوگیا۔ صدر ضیاء، اپنی لاکھ کوششوں کے باوجود، اپنے آپ کو زندہ نہ رکھ پائے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔
تو دوستو!کیا سیکھا ہم نے؟ یہی نا کہ جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ اللہ نے جو فیصلہ کرلیا، اس کو آپ تبدیل نہیں کرسکتے۔ مولانا مودودی جیسے لوگ اس بات کو سمجھ گئے، لہذا وہ فلاح پاگئے۔ ڈر کر جینے والے، اپنے ڈر کو ساتھ لیے اس دنیا سے خارج ہوجاتے ہیں۔ لہذا خوف پالنے کا اتنا ہی شوق ہےتو اللہ کو اپنے خوف کا ذریعہ بنائیے۔ وہ جیسے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے—ان لوگوں کے لیے جو اس کے بجائے دوسروں سے ڈرتے ہیں —کہ"لہذا تم مجھ سے ڈرو، اور ان سے نہ ڈرو، تاکہ میں اپنی نعمتیں تم پر تما م کردوں اور تم ہوجاؤ ہدایت یافتہ۔"(سورۃ البقرۃ، آیت 150)
حوالہ جات:
1۔ ص560، تفہیم القرآن، جلد ششم، سید ابو الاعلی مودودی، کمپوزڈ ایڈیشن، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، 2013ء۔
2۔ ص69، ملاقاتیں کیا کیا!، الطاف حسن قریشی، جمہوری پبلیکیشنز، اشاعت دوئم، لاہور، 2016ء۔
3۔ ص293، آغا سے آغا ناصر تک:عمر کہانی، آغا ناصر، پورب اکیڈمی، طبع دوم، اسلام آباد، 2017ء۔
4۔ ص97، ہم بھی وہیں موجود تھے، اختر وقار عظیم، سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور، 2015ء۔