1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. باشام باچانی/
  4. وی لوگز کی دنیا اور ہم

وی لوگز کی دنیا اور ہم

انٹرنیٹ نے بہت سی سہولتیں لوگوں کو میسر کردی ہیں، اور بہت سے لوگوں کے لیے تو روزگار بھی فراہم کردیا ہے۔ کل تک کسی کو یہ معلوم نہیں تھا—لوگوں کے وہم و گمان میں نہیں تھا —کہ وہ گھر بیٹھے پیسے کمائیں گے۔ کل تک فلم بنانا، ڈرامے بنانا، صرف بڑے بڑے لوگوں کا کام تھا، جن کے پاس بہت سارا پیسہ ہو، زر ہو، یا پھر وہ ٹی وی چینلز یا پروڈیوسر حضرات سے تعلق رکھتے ہوں۔ آج ایک شخص کے پاس صرف ایک اچھی کیمرہ ہونی لازم ہے اور اس کو فلم یا ڈرامہ بنانا آنا چاہیے، اورپھر وہ انٹرنیٹ پر اپنا مواد نشر کرسکتا ہے، اور پیسے کما سکتا ہے۔

لیکن جہاں اتنی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں وہیں ایسے من چلے نکل آئے ہیں —وی لوگرز(سارے تو نہیں، لیکن اکثر)—جو فضول، بے تکی باتوں کے ذریعے پیسے بنا رہے ہیں، اور فضول بے تکے لوگ ان کی باتیں سن بھی رہے ہیں، اور ان کی زندگی ملاحظہ بھی کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس مواد تو ہوتا نہیں۔ اگر آپ ان کا وی لوگ ملاحظہ کروگے تو زیادہ سے زیادہ یہ دیکھنے کو ملے گا کہ "آج ہم نکلے، ناشتہ کھانے گئے۔"پھر وہ ہوٹل کا منظر دکھائیں گے—بیٹھے ہوئے ہیں، خاندان کے لوگوں کے ساتھ، اور پھر کھانا تناول فرمارہے ہیں۔ یا پھر یہ ہوگا کہ وہ بتائیں گے کہ "جی آج ہم فلاں جگہ گھومنے گئے۔"کوئی مواد نہیں۔ کوئی معنی خیز بات نہیں۔ بس یونہی اپنے دن کو محفوظ کرکے لوگوں کو بیوقوف بنایا جارہا ہے:ان کا بھی وقت ضائع کیا جارہا ہے، اپنا بھی وقت ضائع کیا جارہا ہے۔ اور نمائش کے علاوہ آپ کو ان وی لوگز میں اور کچھ دیکھنے کو نہیں ملے گا۔

اور پھر میں یہ سوچتا ہوں کہ جن لوگوں کے پاس وہ چیزیں، وہ نعمتیں میسر نہیں، جو ان وی لوگز میں دکھائی جارہی ہیں، ان لوگوں پر کیا گزرتی ہوگی؟ آپ دکھارہے ہو کہ ہم کتنا زیادہ کھانا کھا رہے ہیں، کتنے ہنس کھیل رہے ہیں اپنے عزیزوں کے ساتھ بیٹھ کر، آپ یہ پوری دنیا کو دکھا رہے ہو—اور بہت سے لوگ آج بھی ایسے ہیں جو ان ساری نعمتوں سے محروم ہیں۔ ذرا سوچو!ان پر کیا گزرتی ہوگی۔ دکھایا جارہا ہے کہ ایک شوہر اپنی بیوی کی خدمت کر رہا ہے۔ اب اس عورت پر کیا گزرتی ہوگی جس کا شوہر— بے شک وہ برا انسان نہ ہو ؛بے شک اس کے اندر اپنی بیوی کی خدمت کرنے کا جذبہ بھی ہو ؛لیکن وہ گھر پہنچ ہی آٹھ نو بجے رہا ہے—صبح نکلتا ہے آٹھ نو بجے، رات کو آٹھ نو بجے پہنچ رہا ہے۔ پھر اسے سونا بھی ہے، کھانا بھی ہے، گھر کے، دن کے، دوسرے کام کاج پورے کرنے ہیں، تو پھر وہ کہاں بیوی کو وہ وقت دے پائے گا۔ اب اس کی عورت اگر یہ ملاحظہ کر رہی ہو وی لوگ، تو اس پر کیا گزرے گی؟ یا کسی شخص کی تین تین بیویاں ہیں، وہ وی لوگز بنا رہا ہے، اور بڑے مزے لے لے کے بتارہا ہے کہ میں نے تین تین شادیاں کی ہیں، تو ذرا سوچیں اس شخص پر کیا گزر رہی ہوگی جس کو ایک لڑکی بھی میسر نہیں رشتے کے لیے، کوئی اس کو اپنی بیٹی دینے کے لیے تیار نہیں۔

تو ا س سے معاشرے میں ایک غلط رجحان پیدا ہورہا ہے۔ نمائش ویسے بھی بری چیز ہے—اس سے اجتناب کرنا چاہیے؛ہمارے مذہب کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے ؛اور اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پھر جو بیچارے احساس کمتری کا شکار ہورہے ہوتے ہیں —ایسے وی لوگز دیکھ کریاایسی وڈیوز دیکھ کر—وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ ایک وڈیو ہے:یہ محفوظ کی گئی ہے؛اس میں سے بہت سی چیزیں خارج بھی کردی گئی ہوں گی بیچ میں سے؛ اور کتنی یہ وڈیو حقیقت پر مبنی ہے اور کتنی افسانے پر یہ بھی ہمیں نہیں معلوم۔ ایک انسان کا اپنے بھائی کے ساتھ اچھا رشتہ ہو نہیں، اور وہ صرف وی لوگز میں اس کےساتھ پیار کا مظاہرہ کر رہا ہو، اور وی لوگز میں سے اس نے وہ سارا حصہ خارج کردیا ہو—ایڈٹنگ کے ذریعے—جس میں وہ بھائی کے ساتھ لڑ رہا ہو، تو دوسروں کو تو یہ ہی لگے گا کہ "یار!یہ کتنا اچھا بھائی ہے۔"لہذا ایک یہ چیز بھی ملاحظہ کرنی چاہیے۔

پھر میں لوگوں کو قصور وار ٹھہرا تا ہوں۔ ان وی لوگرز کو نہیں۔ یہ تو اس لیے یہ کام کر رہے ہیں کہ وہ پیسہ بنا رہے ہیں اور شہر ت کما رہے ہیں۔ ان کے لیے تو یہ ایک ایسا مشغلہ بن گیا ہے جس میں انہیں لطف بھی اٹھا نا ہے، پیسہ بھی کمانا ہے، شہر ت بھی کمانی ہے۔ لیکن لوگ اتنے بیوقوف کیوں ہوگئے ہیں کہ اس قسم کے فضول مواد کو ترجیح دے رہے ہیں، فوقیت دے رہے ہیں؟

بہت سے لوگوں کو یہ شکایت رہتی ہے کہ "میڈیا یہ یہ چیزیں کیوں نہیں دکھا رہی؟ مثبت چیزیں ہیں جو دکھانی چاہییں "یا"یہ یہ چیزیں کیوں دکھا رہی ہے؟ یہ تو منفی چیزیں ہیں ؛معاشرے کو اس سے نقصان پہنچتا ہے۔"تو سیدھی سی بات ہے:میڈیا والے پیسہ بنانے بیٹھے ہیں۔ اگر معاشرے کے لوگ اچھی چیزیں نہیں پسند کرتے تو وہ اچھی چیزیں نہیں دکھائیں گے۔ ہمیں معاشرے کے لوگوں کو قصور وار ٹھہرانا چاہیے۔ اگر ان کے اندر مثبت جذبہ ہو—اچھی چیزیں سننے دیکھنے کی خواہش ہو—تو میڈیا اچھی چیزیں دکھائے گی۔ بالکل اسی طرح کہ دکان دار وہی چیز یں رکھے گا جو آپ چاہتے ہو۔ وہ ایسی چیزیں نہیں رکھے گا جو آپ خریدوگے ہی نہیں۔ کیونکہ پھر تو وہ خسارے میں جائے گا۔ چاہے سوشل میڈیا ہو، چاہے ٹی وی چینلز ہوں، دونوں طرف آپ کو وہ چیزیں نظر آئیں گی جو لوگ دیکھنا چاہتے ہوں، پسند کرنا چاہتے ہوں۔ اور وہی چیز میڈیا استعمال کرکے پیسہ بنائے گی۔ لہذا لوگوں کو قصور وار ٹھہرائیے، ان کو یہ سمجھائیے کہ ایسی فضول چیزیں، فضول باتوں سے اجتناب کریں۔ تبھی معاشرہ اچھائی کی جانب بڑھے گا۔

باشام باچانی

Basham Bachani

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔