جدید دنیا کو دیکھیے، انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ خیر، ہماری عقل تو کئی صدیوں سے خراٹے مار رہی ہے، پھر بھی ذرا کوشش کیجیے، اسے جگائیے۔ وہ الگ بات ہے کہ نیند کا اپنا ہی مزہ ہے۔ مجھے بھی اپنے ساتھ ہی سمجھیے اس معاملے میں۔ لیکن چلیں، تھوڑی دیر کے لئےاس زنگ زدہ ذہن کو تکلیف دیتے ہیں۔ دیکھئے اپنے اردگرد، کیا کیا نہیں دیا سائنسدانوں نے ہمیں: سمارٹ فون، انٹرنیٹ، فیس بک، وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ تو بس ہماری تفریح کا سامان ہے۔ ورنہ جدیدیت نے بہت سے انسانوں کو(اضافی یا نئی) جان بھی دی ہے، (پہلے سے زیادہ یا توقعات کے برعکس) مال بھی، (نئے ذرائع سے)روزگار بھی۔۔۔ یہ نہ سمجھئے کہ میں کہہ رہا ہوں کہ اب(نعوذباللہ!) اللہ رزق اور جان دینے والا نہیں۔ رب العالمین تو وہ ہی ہے۔ بس سائنس کو اللہ کا ذریعہ سمجھئے۔
میری آج کی گفتگو کا موضوع ہی یہ ہے کہ سائنس، نہیں، یوں کہیے کہ سائینسدانوں نے انسانوں کے ساتھ، اور دنیا کے ساتھ، یک طرفہ معاملہ روا رکھا ہے۔ اور میں انھیں اس حوالے سے غلط بھی نہیں سمجھتا۔ ایک دکاندار کا کیا جائے کہ اس کا گاہک اسکے بیچے ہوئے مال کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ اب اگر کل کوئی چھری بیچتا ہے اور لینے والا اپنی اس سے جان لے لیتا ہے، تو بھئی! اس میں بیچنے والے کا کیا قصور؟ اسی طرح ہم سائنسدانوں کے دئے ہوئے تحائف کا کس طرح استعمال کر رہےہیں؟ اجتماعی سطح پر تو مثبت رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔ چاہےآپ بینک جائیں، یا کسی ہسپتال کا رخ کریں یا کسی موبائل کمپنی کے دفتر جائیں، آپ کے بہت سے کام آسان کردئےگئے ہیں۔ وہاں موجودکسی بندے کے پاس کمپیوٹر ہوگا، اس میں موجود آپ کا ڈیٹا آپ کے اور اس ادارے کے وقت کو بچا لیتا ہے۔ کم از کم نجی اداروں میں تو شازونادر ہی دستاویزات کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ لیکن انفرادی سطح پر بالکل برعکس معاملہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ نوجوان قوم اسمارٹ فون کا، انٹرنیٹ کا، چلیں کوئی بھی جدید شے اٹھالیں اور پھر دل پر ہاتھ رکھ کر سچ سچ بتا ئیں کہ کیا نوجوان قوم جدیدیت سے فائدہ اٹھا رہی ہے یا نقصان؟
مجھے یقین ہے، بلکہ میرا ایمان ہے، اگر آپ عقل سے کام لینے والےہیں، تو آپکو معلوم ہوگا کہ نقصان زیادہ ہے اور فائدہ بہت کم۔ مجھے سورۃ العصر کا مضمون یہاں بیان کرنے کا دل چاہ رہا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:" زمانے کی قسم!" یہاں زمانے کی قسم کیوں کھائی گئی ہے؟ کیونکہ میرے نزدیک زمانہ گواہ ہے، بلکہ شہادت دے رہا ہے کہ۔۔۔"بے شک انسان خسارے میں ہے۔"یہ اللہ کا فرمان ہے اور زمانہ اس کی گواہی دیتا ہے اس لئےپہلےقسم کھائی گئی اور پھر فرمایا کہ تم لوگ خسارے میں ہو۔ اب اگر ہم مزید اس سورۃ کا مطالعہ نا کریں، اورمحض ان دو آیات، زمانے کی قسم؛ انسان خسارے میں ہے، پر اکتفا کریں، تو ہمیں یوں محسوس ہوگاکہ اللہ تعالی نے اپنی اس آخری کتاب کے ذریعےایک مایوس کن فیصلہ سنا دیا ہے۔ لیکن ایک تیسری آیت، جس میں خسارے سے بچنے کی ترکیب فرمائی گئی ہے، اس مایوسی کو رفع کردیتی ہے۔ فرمایا، اللہ تعالی نے، "سوائے ان کے جو ایمان لائے، جنہوں نے نیک عمل کیے، اور حق کی تاکید کی، اور صبر کی تاکید کی۔"
یعنی کل انسانیت غلط راہ پر ہے، لیکن جو چار اوصاف اس سورۃ میں بیان کی گئی ہیں، وہ ایک دوا کا روپ دھارتی ہیں، لوگوں کوخسارےسے نکال کر نفع کے پاس لے جاتی ہیں۔ اور غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس کے پاس ایمان نہیں وہ درحقیقت خسارے میں ہی ہوتا ہے، چاہے اس کے پاس دولت ہو، (دنیاوی طور پر) عقل مند ہو، یا خوب صحت مند ہو۔ یہ وجہ ہے کہ آجکل اچھے بھلے کامیاب لوگ بھی مایوسی کی باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے علم میں جتنا اضافہ ہو، اتنا ہی ان کے اندر مایوسی کا مادہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ لیکن اہلِ ایمان اس روش کو اختیار نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ اپنے رب سے خیر طلب کرتے رہتے ہیں، اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتے۔
پھر جودوسری خصوصیت بیان کی گئی ہے، وہ ہے عملِ صالح۔ البتہ ایمان کو پہلا درجہ حاصل ہے۔ کیونکہ نیک عمل تو کفار بھی کرتے ہیں۔ اور اچھے عمل سے مراد یہ ہے کہ آپ جس حد تک ہو سکے اچھائی کرتے رہیں، جتنی طاقت سے آپ کو نوازا گیا ہے اس کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، اسی طرح ہر کسی کے اچھے اعمال ایک معیار کے نہیں ہوتے۔ رب تعالی نے اسی لیے فرمایا: "کسی نفس کو نہیں دی جائے گی تکلیف سوائے اس کی وسعت کے مطابق۔"(سورۃ البقرۃ، آیت286) لہذا اچھے عمل کو سینے سے لگائیے، جتنی اچھائی با آسانی ہو سکتی ہے اس پر تو کم از کم پورے اتریئے۔
تیسری خصوصیت تلقینِ حق ہے۔ جو شخص ضعیف الاعتقادی سے نہ بچے گا، محض اپنے گمان کی پیروی کرے گا، جو عقل سے آری ہوگا، وہ ہمیشہ خسارے میں رہے گا۔ بغیر سچ جانے انسان نے محض گھاٹےکو ہی دعوت دی ہے۔ حق کا طالب، عقل وشعور سے کام لینے والا، جھوٹی اور افسانوی باتوں کو نہ وزن دے گا نہ اہمیت۔ وہ تو تحقیق کا راستہ اپنائے گا، وہ حق کا طالب ہو گا، اسکی جستجو میں دن رات ایک کردے گا۔ قیاس آرائیاں، مفروضات وغیرہ سے محض جاہل ہی کا واسطہ پڑتا ہے۔
اخیر میں صبر کی تلقین کو خسارے سے بچنے کا ایک ذریعہ بتایا گیا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ہم کسی کو تکلیف میں دیکھ کر، یا خود تکلیف پاکر، صبر سے کام نہیں لیتے اور جذباتی ہوکر جلدبازی سے کام لیتے ہیں۔ ہماری عقل اس وقت مفلوج ہوجاتی ہے۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہمیں جس حد تک ہوسکے صبرکا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ غصہ آنا، جذباتی ہوجانا ایک فطری عمل ہے۔ لیکن اس بات کو مستقل طور پر اپنی زندگی میں داخل کردینا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ صبر ایک بہت بڑی دوا ہے۔ قرآن میں بار بار فرمایا گیا کہ اللہ پاک صابرین کے ساتھ ہے۔ کیا آپ چاہتے ہو اللہ آپ کے ساتھ ہو؟
شروع میں ہم نے جدیدیت پر گفتگو کی تھی۔ جدیدیت نے انسان کو بہت کچھ دیا ہے، ایسا میں نے کہا تھا۔ لیکن ایسا کوئی جدید آلہ ہے جو ان چار اوصاف کو ہمیں مہیا کرسکے؟ ایک سوال میں نے آپ کے سامنے پیش کردیا ہے۔ اس پر ذرا غور کیجئے۔ ٹیکنالوجی محض ہماری زندگی آسان بناسکتی ہے، ہمیں اچھا انسان نہیں بنا سکتی۔