یہ مغرب کا وقت تھا۔ آج سے تین سال پرانی بات ہے۔ میرے دونوں ہاتھوں میں میری نو زائیدہ بچی تھی جسے دنیا میں آئے ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ دو تین دن سے ہسپتال میں زیر علاج تھی اور اب میں اسے گھر لے جارہا تھا۔
اور ابھی تو ہم نے مزید مشکل دن دیکھنے تھے۔ تین مہینے تک بچی کے حوالے سے ہم نے جو مشکلات سہیں ان کا اندازہ صرف مجھے اور میری اہلیہ کو ہے۔
خیر، وہ تو کہانی ہی الگ ہے، کسی اور دن سناؤں گا۔ لیکن میں وہ منظر نہیں بھول سکتا جو میں نے ہسپتال کے باہر دیکھا، جو مجھے کئی سال پیچھے لے گیا۔
ایک کتیا اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ یہ دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ مجھے سمجھ آگیا کہ اس وقت میرے ساتھ یہ کیوں ہورہا تھا: ہم جب ہسپتال داخل ہوئے، بچی کو سانس لینے میں دشواری پیش آرہی تھی، اس کا وزن گر رہا تھا۔۔ جو مسلسل تین ماہ تک گرتا رہا۔۔ اس کو اینٹی بائٹک اور دوائیاں دینے کے لیے کئی سوئیاں لگانی پڑیں، وہ چیخ رہی تھی، چلا رہی تھی اور میں اپنی اہلیہ سمیت رو رہا تھا، اس کا ایکسرے لینے کے لیے اسے جس جگہ لیٹایا گیا وہ ٹھنڈی تھی جس کی وجہ سے وہ مزید تیز رونے لگی، میں نے اس وقت (اللہ میری اس خطا کو معاف کرے)کہا: "یا اللہ!میری جان لے لیتا تو اس سے بہتر تھا"۔ لیکن کیا کرتے، اس وقت ہوش ہی نہ تھا۔ (بعد میں اللہ سے بہت معافی مانگی اس گستاخی کے لیے) پہلی بچی تھی اور ہم ابتدائی دنوں میں یہ سب جھیل رہے تھے۔
لیکن اس وقت ایک چیز تھی جو ہمیں ہمت دیتی۔ وہ ہے اپنوں سے بدتر حالت والے لوگوں کو دیکھ کر۔ میں نے ایسے نوزائدہ بچے دیکھے جن کی جلد جل چکی تھی، کسی کی آنکھ میں انفیکشن پایا تو کسی کا ہاتھ کٹا ہوا پایا۔ یہ دیکھ کر مجھے میرے مسئلے معمولی بھی معلوم نہ ہوئے۔
خیر، جب میں نے اس کتیا کو دیکھا تو رو پڑا۔ میں نے بچی اپنے نوکر کو پکڑائی تاکہ میں گاڑی میں بیٹھوں۔ گاڑی چالو کرکے میں گھر کی جانب جانے لگا۔ لیکن دوران سفر میں ماضی میں کھو گیا۔ مجھے پتہ چلا کہ کیوں مجھے یہ تکلیف پیش آرہی ہے اپنی بچی کے حوالے سے۔
2011ء میں جب میں یونیورسٹی کے پہلے سال میں تھا، تب ایک بار صبح گاڑی میں بیٹھ کر میں نے جلدبازی اور انجانے میں ایک کتیا کے بچوں کو اپنی گاڑی سے روند دیا تھا۔ کتیا کے بچے میری گاڑی کے نیچے سورہے تھے، اور کیونکہ مجھے جلد یونیورسٹی پہنچنا تھا، میں نے گاڑی میں داخل ہونے سے پہلے یہ دیکھا ہی نہیں کہ چند چھوٹے چھوٹے کتوں کے بچے گاڑی کے نیچے آرام فرما رہے تھے۔ وہ تو جب گاڑی ریورس کی، جب محسوس ہوا کہ گاڑی نے کسی شے کو روندا ہے، جب کتیا کے ایک بچے کی چیخنے کی آواز سنائی دی تو پتہ چلا کہ میں نے کیا کیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد کتیا نے میری گاڑی کو ٹکر مارنا شروع کیا، میرے نوکر مجھے بتانے لگے کہ بیچارے چھوٹے کتے کو تم نے روند دیا ہے۔ لیکن میرے دل میں اس وقت اس کتیا کے لیے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔۔ لڑکپن اور بے پروائی کے دن تھے۔ میں نے تو پیچھے مڑ کر یہ دیکھنا گوارا نہ کیا کہ اس چھوٹے کتے کا کیا بنے گا۔ (بعد ازاں پتہ چلا کہ ہمارے ایک ہمسائے، جو ڈاکٹر ہیں، انہوں نے اس چھوٹے کتے کی مرہم پٹی کی اور اسے پانی اور غذا دی تاکہ وہ صحت پکڑے۔)
میں نے یہ واقعہ یاد کیا اور پھر مجھے سمجھ آگیا کہ اللہ نے مجھے یہ تکلیف کیوں دی۔ آج میری بچی کی جسمانی صحت ناساز تھی، آج میری بچی تکلیف سے چیخ مار رہی تھی، آج میں ہسپتالوں اور طبیب حضرات کی ٹھوکریں کھا رہا تھا۔ میں نے رو رو کر اللہ سے مغفرت طلب کی۔ میں نے کہا: یا اللہ! مجھے معاف کردیجیے۔ یہ آج جو میرے ساتھ ہورہا ہے میرے ہی ہاتھوں کی کمائی ہے۔
ہماری بچی تین مہینے تک گاہے بگاہے تکلیف کا شکار ہوتی گئی۔ وزن گرتا گیا، اور ہماری مدد کرنے کے لیے بھی کوئی موجود نہیں تھا۔۔ سوائے ہمارے ایک نوکرکے، جو خود کوئی تجربہ بچوں کو پالنے کے حوالے سے نہیں رکھتا۔ یہ ہمارا پہلا بچہ تھا اور ہم تجربہ نہیں رکھتے تھے۔ دن بہ دن بچی کے گرتے وزن اور کمزور ہڈیوں کو دیکھ کر میں اپنی اہلیہ سمیت رو پڑتا۔ اور ان تاریک دنوں میں، میں اور میری اہلیہ ان لوگوں کو یاد کرنے لگے جن سے کبھی چاہے جان بوجھ کر یا انجانے میں، ہم نے کبھی بدتمیزی کی۔ وہ کام ڈھونڈنے لگے جو ہم نے غلط کیے، تاکہ انہیں سیدھا کرسکیں۔
الحمداللہ! تین مہینوں بعد وہ مشکل دن اختتام کو پہنچے۔ آج بچی تین سال کی ہے، اللہ کے فضل سے تندرست ہے اور پھرتیلی بھی۔ ہمیں چوبیس گھنٹے مصروف رکھتی ہے۔
یہ باتیں آج مجھے کئی سالوں بعد کیوں یاد آئیں؟
میاں اسلم اقبال کی ایک ٹوئیٹ (مورخہ 4 جون، 2023ء)میں نے پڑھی۔ اس میں وہ ساری زیادتیاں گنوا رہے ہیں کہ کیسے پولیس ان کی آڑ میں ان کے خاندان کے کئی لوگوں کو تنگ کر رہی ہے، پولیس آکر ان کے گھروں میں چھاپے کے بہانے توڑ پھوڑ کر رہی ہے اور مال لے کر روانہ ہورہی ہے۔ پھر ساتھ ساتھ مجھے وہ وڈیو نظر آئی جس میں عالیہ حمزہ صاحبہ، کئی پی ٹی آئی کی گرفتار خواتین کے ساتھ مل کر عدالت کے بار احتجاج کر رہی ہیں۔ وہ زیادتیاں گنوا رہی ہیں کہ جی ہمیں کھانا، دوا، وغیرہ نہیں مل رہا، رات کو اٹھا کر تلاشی لیتے ہیں، ہمیں گھروں سے اٹھا لیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔
یہ میرے نزدیک کچھ لوگوں کی بد دعائیں ہیں اور کچھ لوگون کی آہ، جو آج ان کے ساتھ یہ ہورہا ہے۔ ہم کسی کے ساتھ بھی زیادتی ہو، اس کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن کئی بار انسان کے ساتھ جو ہوتا ہے وہ اس کے کسی پرانے عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ ان لوگوں نے ایسا کیا کیا اور کس کی بد دعا انہیں لے ڈوبی ہے؟ تو اب جواب ملاحظہ کیجیے۔
آپ کو یا د ہوگا، اگر نہیں ہے تو جاکر انٹرنیٹ پر کھوج لگائیں، اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں چند سیلاب متاثرین، آئی ڈی پیز کی گائے گھس آئی تھی۔ کم ازم کم یہ وہ جواز تھا جس کی بنیاد پر اعظم سواتی نے۔۔ جو تحریک انصاف کی حکومت کے آنکھ کا تارہ تھے۔۔ پولیس پر دباؤ ڈال کر اس خاندان کے مردوں کو قید خانے ڈال دیا تھا۔ گھر کے بچے اور لوگ جب بھوک سے مر رہے تھے اور جب ہمسایوں نے ان کے پاس کھانا بھیجنا چاہا تو ان کو بھی ڈرایا دھمکایا گیا کہ خبردار! ایسا نہ کرنا۔ اس کہانی پر سلیم صافی صاحب بہت سے پروگرامز کرچکے ہیں۔ آپ ذرا ملاحظہ کیجیے تاکہ پتہ چلے کہ ایک امیر وزیر اور سینیٹر کیسے اپنے اختیارات کا استعمال کرکے غریب لوگوں کی زندگی اجیرن بناتا ہے۔
اسی طرح آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان پر پچھلی سال حملہ ہوا۔۔
جی جی وہی حملہ جس کے بعد وہ کنٹینر کی اوپری منزل سے نیچے گئے، پٹی بھی ان کے پیر پر چڑھائی گئی، لیکن جب گاڑی میں انہیں منتقل کیا جارہا تھا تو ان کی پٹی بالکل صاف اور شفاف تھی۔۔ دودھ کی طرح سفید۔ کوئی خون کا دھبا نہیں تھا۔ خیر، ابھی چند دن پہلے میں نے اپنا ایک دانت ہٹوایا، دو گھنٹے تک خون نکلتا رہا۔ کپاس مسلسل منہ میں ڈالے رکھنی پڑی۔ اور جب کپاس باہر آتی تو خون سے آلود ہوتی۔ یہاں ہمارے دلیر کپتان کا یہ حال ہے کہ گولی پاؤں پر لگی، اوپری منزل سے نیچے آئے، مرہم پٹی ہوئی، لیکن پٹی پر ایک بھی خون کا دھبا نہیں تھا۔ سبحان اللہ!
اس حملے کے فوراً بعد پی ٹی آئی کے لوگ سڑکوں پر تھے۔ صوبائی حکومت پی ٹی آئی کی تھی لہذا حکومت نے کئی ہفتے پی ٹی آئی کی غنڈہ گردی برداشت کی۔ پی ٹی آئی کے غنڈوں نے سڑکیں شاہراہیں بند کیں اور لوگوں کا جینا محال کردیاگیا۔
فیاض الحسن چوہان کی تو اس وقت ایک وڈیو مشہور ہوئی جس میں ایک بوڑھی خاتون انہیں ڈانٹ رہی ہیں جبکہ وہ بڑے مزے سے کھانا نوش فرما رہے ہیں۔
اور یہ کام خلائی مخلوق نہیں کر رہی تھی۔ عمران خان کے احکام کو بجا لاتے ہوئے کئی صوبائی اسمبلی کے ارکان راستوں کو بند کرکے بیٹھے تھے۔ یہ جو آج عمران خان سفید جھوٹ بول رہے ہیں نا کہ ہم تو پر امن رہے ہیں، کبھی توڑ پھوڑ اور انتشار کی سیاست کی ہی نہیں۔
اس وقت ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی، جس کو جاوید چوہدری صاحب نے اپنے 8 نومبر 2022ء کے وی لاگ میں بھی چلایا۔ وڈیو میں ایک شخص پی ٹی آئی کے ایک ایم پی اے غلام سرور خان سے التجا کر رہا ہے۔۔ غور سے پڑھیے یا سنیے یہ اس بندے کے الفاظ ہیں، میں ہو بہو درج کر رہا ہوں:
"سر! ایک منٹ آپ سے گزارش ہے، مہربانی ہےآپ کی، اللہ کا واسطہ ہے، میر ی بیٹی۔۔ ایمرجنسی میں پڑی ہے۔ وہ پیچھے گاڑی کھڑی ہے۔ لیڈیز سے بھری ہوئی ہے سوزوکی"۔
جس پر غلام سرور خان ان سے کہتے ہیں:
"بیٹے سب کی ایمرجنسی ہے۔۔ اللہ کا واسطہ ہے آپ (واپس) چلے جائیں"۔
آپ سوچیں اس بندے پر کیا گزری ہوگی۔ کبھی ایک منٹ کے لیے ان لوگوں کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر دیکھیں۔ جو بیچارے تکلیف سے مر رہے ہونگے، لیکن کیونکہ بہادر کپتان کے پاؤں پر گولی لگی ہے، وہ بڑی عیاشی میں کبھی شوکت خانم تو کبھی زمان پارک میں سارے زندگی کے لطف اٹھا رہا ہے، لہذا آپ بے شک تڑپ رہے ہوں، اپنی بچی کو اسکول، کالج یا یونیورسٹی سے لے کر گھر لانا چاہتے ہوں، آپ ایسا نہیں کرسکتے۔
اس وقت موٹر وے پر جو گند ہوا، سب کے سامنے ہے۔ کبھی موٹر وے کو بڑی کیل کا استعمال کرکے ہتھوڑے سے تباہ کیا جارہا ہے تو کبھی واثق قیوم صاحب، جو اس وقت نائب اسپیکر تھے پنجاب اسمبلی، وہ کرکٹ کھیل رہے تھے اور چاروں طرف آگ لگی ہوئی تھی، چاروں طرف دھواں ہی دھواں تھا۔ یہ ہے عمران خان کے "پر امن احتجاج" کا اصل چہرہ۔
عمران خان کے لانگ مارچ کے وقت جہاں بھی وہ جاتے، وہاں اسکول، کاروبار، وغیرہ سب مفلوج ہوجاتا تھا۔ کبھی فون سروس معطل تو کبھی انٹرنیٹ سروس۔ کیوں؟ کیونکہ خان کی جان قیمتی ہے۔ باقی لوگوں کا کیا۔ کسی کو فری لانسنگ کرنی ہے، پیسے کمانے ہیں، کوئی بات نہیں چند دن انٹرنیٹ کے بغیر کام چلا لو۔ کسی کو رکشہ چلانا ہے یا ریڑھی لگانی ہے، ان کے گھر کا چولہا تب ہی چلتا ہے، لیکن خان کے لیے اتنا تو کرنا پڑے گا نا کہ چند دن ان کے بچے بھوکے سوئیں۔ تبھی تو انہیں"حقیقی آزادی" اور "نیا پاکستان"ملے گا۔
آج جو پی ٹی آئی کے لوگ چیخ رہے ہیں کہ ہم سے زیادتی ہوئی، میاں اسلام اقبال جیسے، جو خود کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اس وقت کیونکہ ان پر یہ مشکلات نہیں گرزر رہی تھیں، بلکہ یہ تو اس وقت خان کی مقبولیت کے نشے میں گرفتار تھے، ان غریب لوگوں کی التجاؤں اور تکالیف سے بالکل بے پروہ تھے۔ وہی خواتین جو آج خواتین کارڈ استعمال کر رہی ہیں، وہ تب کہاں تھیں جب وہ لڑکی ہسپتال میں ایمرجنسی میں تھی اور اس کا والد بھیک مانگ رہا تھا کہ مجھے جانے دیں؟ وہ تب کہاں تھیں جب طیبہ گل کے ساتھ زیادتی ہورہی تھی اور انہیں کئی ماہ وزیر اعظم ہاؤس میں قید رکھا گیا۔ یہ لوگ تب کیوں نہیں روئے جب رانا ابرار خالد۔۔ جو عمران خان کی توشہ خانہ سے متعلق بے ضابطگیوں کی تحقیق کر رہے تھے۔۔ ان کی ستر سالہ والدہ کو دھمکی دی گئی، جب رانا صاحب پر سوات میں حملہ ہوا؟ تب یہ لوگ نہ روئے۔
آج ان خوشحال لوگوں کو وہی مزہ چکھنے کو ملا ہے تو رونے لگے ہیں۔ تنگ آگئے ہیں جیل کے برے کھانے سے اور تنگ ماحول سے۔ اس وقت جب ان بیچارے غریبوں کا برا حال تھا، آپ خان کے دائیں بائیں کھڑے سیلفیاں نکال رہے تھے، فوج کو گالیاں دے رہے تھے، ریاست اور حکومت کو گرانے جارہے تھے، ملک دیوالیہ ہوجائے ایسی دعائیں کر رہے تھے۔ آج دیکھیں، ان لوگوں کی بد دعائیں رنگ لائی ہیں۔ ایسے ہی نہیں کہتے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
میں نے تو اس وقت ہی عمران خان کے اس انجام کے بارے میں پیشگوئی کر دی تھی، جبکہ عمران خان کی مقبولیت دیکھ کر کسی کو اس بات کا شبہ نہ تھا کہ اس کا یہ حال ہوگا۔ میں نے اسی ویب سائٹ پر مضمون لکھا تھا جس کا عنوان ہی یہ تھا: "عمران خان کا انجام کیا؟"۔ کیوں؟ کیونکہ میں ہوشیار ہوں؟ نہیں۔ کیونکہ میں دیکھ رہا تھا لوگ کیسے بد دعائیں دے رہے تھے، کیسے کئی مظلوم رو رہے تھے۔ اور مجھے وہ رسول اللہﷺ کی حدیث یاد آئی کہ "مظلوم کی آہ سے ہر وقت ڈرتے رہنا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی"۔ (صحیح بخاری، حدیث 4347)
سچ کہتے ہیں: اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔