خلیل جبران کہتا ھے
" اُس نے کہا، میں نے مان لیا۔ اُس نے زور دے کر کہا، مجھے شک ہوا۔ اُس نے قسم کھائی اور مجھے یقین ہو گیا وہ جھوٹ بول رہا ھے"
ہم سب زندگی میں کبھی نا کبھی ایسی صورتحال سے ضرور گزرتے ہیں۔ جھوٹ مختلف شکلوں میں اپنی چھب دکھلاتا ہے اور ہم کبھی محبت کبھی رفاقت اور کبھی سیاست کے نام پر اس کے دھوکے میں خوشی خوشی آتے رہتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کبھی نا کبھی جھوٹ کے سارے پردے چاک ہو کر ہی رہتے ہیں اور سچ اچانک ہماری نظروں کے سامنے پورے کروفر، پورے یقین کے ساتھ آ کھڑا ہوتا ہے اور جھوٹ کو بھاگنے کا راستہ نہیں ملتا۔ ہاں ایک بات اور آپ نے دیکھا ہو گا ایسی سچویشن میں آپ کو حیرت نہیں ہوتی کیونکہ آپ نے اس کو پہلے بھی بارہا اپنے آس پاس کہیں دیکھا ہوتا ہے۔ لیکن آپ کو اس کا ادراک دیر سے ہوا ہوتا ہے۔ جھوٹ دراصل کرپشن کی ماں کو کہا جاتا ھے۔ کرپشن پہ یاد آیا "بڑے شریف" صاحب فرماتے ہیں
"جب سے سیاست میں قدم رکھا ہے کبھی کرپشن میرے قریب سے نہیں گذری"
آخو۔ ۔ ۔ جیا جیا چودھری جی سچ کہندے او جی :)
کرپشن پاس سے گذرتی کب ہے؟؟؟ یہ تو لہو میں سرایت کر جاتی ہے۔ روح میں حلول کر جاتی ہے۔ فصلوں اور نسلوں کو برباد کر دیتی ہے۔ کرپشن پاس سے واقعی نہیں گذرتی۔۔۔! آپ کے ہر عمل اور رد عمل سے جھلکتی ہے۔ کرپشن وائرل کی طرح ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کو لگتی چلی جاتی ہے لیکن اس کی پہنچ سے وہی انسان محفوظ ہوتا ہے جس پر اللہ پاک کی خاص مہربانی ہوتی ہے۔ کرپشن کو مولانا زرداری رح نے بھی آس پاس تو کیا کبھی دور دور تک نہیں دیکھا (سبحان اللہ) زرداری صاحب کے قریبی دوست بھی الحمدللہ اس کے شر سے محفوظ رہے ہیں اور "باجماعت شریف اور پرہیز گار" پابند صوم و صلات ہیں ماشاءاللہ
ان کی دیانتداری کا تو یہ عالم ہے کہ خواب میں بھی امام کعبہ کو دیکھتے ہیں۔ محبت اور بھائی چارے کو ان کی زندگی کا اہم ستون کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ اس کی ایک مثال تو دیکھیں بھٹو شہید کے قاتلوں کو بھی ہمیشہ اپنا ماں جایا سمجھ کر گلے سے لگایا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ نون لگتا ہے ایک ہی سیاسی جماعت ہے۔ یک جان دو قالب ہیں۔ دونوں کا ایک منشور ھے، محبتیں سانجھی، رفاقتیں سانجھیں بلکہ “نیتیں سانجھی“ دونوں جماعتوں کی محبت دیکھکر “ہیر رانجھا“ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اسی لیے عمران خان خواہ مخواہ چاچا قیدو کا کردار ادا کرنے کے لیے آ ٹپکا۔ عمران خان کو کیا پتہ یہ محبت کیا بلا ہے۔ پتہ ہوتا تو بار بار محبت کرتا؟ وہ تو سیاست کرنا بھی نہیں جانتا ورنہ اس کے پاس بھی اتنی دولت ہوتی کہ مکیش امبانی اس سے دوستی کر کے فخر محسوس کرتا۔ لیکن عمران خان کو بھی پاکستان کی محبت نے واقعی اندھا کر کے رکھ دیا ہے اور وہ پاکستان کو لوٹنے والوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر ہی پڑ گیا ہے۔ حد ہوتی ہے کسی چیز کی۔ انور مقصود کا ٹوئیٹ پڑھکر مجھے بڑی حیرت ہوئی وہ کہتا ھے "ہمارے حکمرانوں نے اپنے گھروں میں اتنی دولت جمع کر لی ہے کہ عزت کے لیے جگہ ہی نہیں بچی"
لگتا ہے سب لوگ سیاستدانوں کے خلاف محاذ کھول کر بیٹھے ہیں۔ اوپر سے عدلیہ، نیب اور افواج پاکستان کو بھی بس پاکستان کی سالمیت کی ہی پڑی رہتی ھے۔ ہمارے فوجی جوان مسلسل اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے وطن کی آبرو پر قربان کرتے جا رہے ہیں، مجال ھے کوئی سیاستدانوں سے جیو اور جینے دو کا سنہرا اصول سیکھے اور اب تو کرپشن کے تعاقب میں عمران خان نے "بیوروکریسی" سے بھی پنگا لے لیا ہے۔ اللہ جانے یہ بندہ کیا کیا مزید گُل کھلائے گا؟
مجھے تو بیل منڈھے چڑھتی نہیں نظر آتی۔
خیر اللہ مالک ہے۔ پاکستان نے رہنا ہے انشاءاللہ۔ باقی لوگ آتے جاتے رہتے ہیں کسی نے کیا خوب کہا تھا حد سے زیادہ سمجھداری زندگی کو بور کرتی ہے لہذا بونگیاں ماریں اور خوش رہیں :)