سلویا پلاتھ بہت خوبصورت شاعرہ اور بہت ہی اعلیٰ ناول نگار تھی مجھے آج اچانک اس کی ایک نظم یاد آگئی ھے کہتی ھے
“ مجھ میں اس نے نوجوان لڑکی ڈبو دی ھے
اور میرے اندر سے روز بروز ایک بوڑھی عورت خوفناک مچھلی کی طرح اس کی طرف بڑھ رہی ھے“
سلویا پلاتھ بےحد حساس شاعرہ تھی لیکن “بےحد حساس “ لکھنا کچھ اضافی سا نہیں لگ رہا؟؟ کیونکہ فنکار اگر حساس نہ ہو تو وہ صرف “بھانڈ“ ہو سکتا ھے فنکار نہیں۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ھے کہ ھم نے فنکاروں اور بھانڈوں کو مکس اپ کر دیا ھے۔ مجھے یاد ھے جن دنوں میں سید نور کی فلموں کے گیت لکھ رہی تھی تو ماضی کے مایہ ناز موسیقار وزیر افضل صاحب سے میری کافی گپ شپ ہوئی وہ چونکہ میرے لکھے نغموں کے لیے فلم کی موسیقی تیار کر رہے تھے۔ مجھےانکی زبانی یہ بات بھی پتہ چلی کہ میڈم نور جہاں کو پہلی مرتبہ پنجابی فلم کے لیے گانا گانے کا وزیر افضل صاحب نے ہی مشورہ دیا تھا اور انکے ساتھ میڈم نے فلم “دل دا جانی“ کا معروف نغمہ سئیو نی میرے دل دا جانی۔ ۔ ۔ گایا تھا۔ اس بات کی تصدیق سید نور نے بھی کی اور وزیر افضل صاحب کی بے حد تعریف کی۔ میں نے سوچا واقعی اگر یہ عظیم فنکار میڈم کو پنجابی گانوں کی طرف نہ لاتا تو پاکستانی فلموں کے لازوال گیت کبھی سننے کو نہ ملتے وزیر افضل جیسے آرٹسٹ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ میں نے سید نور سے پوچھا کہ پھر ان جیسے عظیم لوگوں سے کام کیوں نہیں لیا جا رہا بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ان فنکاروں کے گھر چولہا جلانے کے لیے ان کو کام کیوں نہیں دیا جارہا؟؟ تو سید نور نے کہا کیونکہ یہ سچے اور حساس فنکار ہیں لہذا ان کی خودداری آڑے آجاتی ھے اور یہ خود کام نہیں مانگتے اور میں یہی سوچتی رہی کہ فنکار ہر دور میں ایسا ہی ہوتا ھے سچا اور حساس۔ ۔ ۔ لیکن ھم نے واقعی فنکار اور غیر فنکار کو مکس کر دیا ھے۔ آج کل فنکار لفظ بطور طنز استعمال کیا جاتا ھے۔ کسی منفی ایکٹیوٹی پر کچھ کہنا مطلوب ہو تو کہا جاتا ھے بہت ہی بڑا فنکار ھے۔ ایک خبر تھی “مجرم بہت بڑا فنکار نکلا غیر محسوس طریقے سے جیب کاٹ کے لے گیا اور لٹنے والے کو پتہ ہی نہ چل سکا“
سچے فنکار کے پاس “فن“ ہوتا ھے لیکن “کار“ شازونادر ہی ہوتی ھے۔ کیونکہ فنکار کے لیے گھر کا چولہا جلانا ہی مسئلہ بن چکا ھے میرا ایک شعر ھے نا
فن سے کیسے بھوک مٹائے بچوں کی؟
سوچ رہا ھے آج کا یہ فنکار ابھی
میرے سامنے مشتاق کاملانی کی تصویر ھے۔ سڑک کے کنارے مٹی پر سویا ہوا یہ فنکار سندھ کے شہر سجاول سے تعلق رکھتا ھے۔ مشتاق کاملانی دانشور، کہانی نویس اور شاعر ہونے کے ساتھ ماہر لسانیات بھی ھے۔ سندھی، اردو، فارسی، انگلش اور پنجابی زبان کا ماہر بھی ھے اور برسوں سے بھیک پر گزارہ کر رہا ھے۔
ساغر صدیقی کاشعر ھے
جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس دور کے حاکم سے کوئی بھول ہوئی ھے
ساغر صدیقی وہ فنکار ھے جو سگریٹ کی خالی ڈبی پر شعر لکھ کر “بھانڈوں“ یعنی بےضمیر شاعروں کو دے دیا کرتا تھا تاکہ اس کے جگر کی پیاس اور شکم کی بھوک مٹ سکے۔ اگر اس فنکار سے غزلیں لکھوانے کی بجائے کسی نے اس سے ہمدردی کی ہوتی تو وہ داتا گنج بخش کے لنگر خانے کی قطار میں پھٹے پرانے کپڑوں میں نہ کھڑا ہوتا۔ بھیک نہ مانگتا لیکن ھم فن سے عشق کرتے ہیں اور فنکار کو قتل کر کے ان کے تعزیتی اجلاس منعقد کروا کر ٹسوے بہاتے ہیں تاکہ ہمارے “تھوبڑے“ اخبارات کی زینت بن سکیں۔
سارا شگفتہ کی خودکشی پر بےتکان بولنے والے ہمدرد شاعر و ادیب اسکی زندہ لاش کو بھنبھوڑتے رہے۔ اس وقت ان کاضمیر کہاں تھا جب وہ مردہ بچے کو کفن پہنانے اور ہاسپٹل کا خرچہ ادا نہ کر سکنے والی عورت ایک ہی بار مر جانے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ مجھے اس کی خودکشی پر کم لیکن زندہ رہنے پر حیرت اور افسوس زیادہ تھا۔
سلویا پلاتھ کی نظم میری سوچ کے دھارے کو کہاں سے کہاں لے گئی۔ سلویا پلاتھ کی خودکشی میرے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں وہ فنکار تھی اور فنکار جینا چاھتے ہیں لیکن اگر وہ نہیں جی پاتے تو اس میں صرف ان کی ذہنی حالت کو الزام دے کر “بری الذمہ“ ہونے کی عادت بہت بوسیدہ ہو چکی ھے ہمیں اپنی اپنی جگہ سوچنا ہو گا کہ آخر یہ معاشرہ اتنا “فنکار خور“ کیوں ھے؟؟؟
فنکار تو زندگی اور خوبصورتی کے پیامبر ہیں۔ یہ زندگی اور خوبصورتی آخر موت کی اتھاہ گہرائیوں میں کیوں پناہ لینے پر مجبور ہو رہی ھے؟؟
سرکاری ادبی اداروں کے سربراہان ان بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے کیا کرتے رہتے ہیں؟
کیا وہ اس بے حسی کے ذمے دار نہیں؟؟
میں ارباب اختیار کے لیے یہ سوالات چھوڑ رہی ہوں ساغر کے شعر کے ساتھ
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ھے
جانے کس جرم کی پائی ھے سزا یاد نہیں