میں ماں ہوں علم ہے مجھ کو
مرا بچہ،
مجھے کب، کیوں بُلاتا ہے؟
رُلاتی ہے اسے کیا بات
کس پل مسکراتا ہے؟
وہ کب آرام کرتا ہے
وہ کیسے کھلکھلاتا ہے؟
میں ماں ہوں، علم ہے مجھ کو
مگر جب یہ بڑا ہو گا
مجھے یہ کچھ بتائے گا
یہ کچھ مجھ سے چھپائے گا
یہ سمجھےگا کہ ماں کو کیا خبر اس کی
وہ گھر بیٹھی بھلا کیا جان پائے گی؟
وہ گھر تاخیر سے آ کر بہانے جب بنائے گا
میں سب کچھ جان کر انجان بن جاؤں گی اس لمحے
کہ یہ ہر ماں کی فطرت ہے
مرا بچہ یہ کیسے جان سکتا ہے
کہ اُس کی اِن رگوں میں،
ماں لہو کے ساتھ چلتی ہے
اُسے کانٹا بھی چبھ جائے
تو ماں کا دل تڑپتا ہے
وہ جس جا بھی چلا جائے
دُعاؤں کے گھنے حصار میں محفوظ ہوتا ہے
وہ ماں کے دل میں ہوتا ہے
قدم جس پل اٹھاتا ہے
وہ جس رستے پہ جاتا ہے
تو ٹھنڈی چھاؤں سا آنچل بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے
میں ماں ہوں، علم ہے مجھکو