لیلیٰ کے پاؤں میں سُرخ گلاب مہکتا،
سسک رہا ھے
آبلوں میں صدیوں کی کہانی
آنکھوں میں گہرا سنٌاٹا،
ہُو کا عالم
شام گھنیری،
رم جھم اوس میں بھیگی پلکیں،
چیتھڑے تن پر، ہاتھ میں بستہ
اور بستے کے اندر ماں کے خواب ادھورے
آزادی کے، بیداری کے، ایک چمن کے،
امن، محبت اور وطن کے
ماں کہتی تھی
اِس مٹی میں خون سے لکھٌے افسانے ہیں
بیٹوں کے بے گور کفن لاشوں کے دھبے،
دھرتی کے ماتھے پر دیکھو، چمک رہے ہیں
اور ناموس کے لال دوپٹے،
لیر و لیر ہوئے جاتے ہیں
تتلی مُٹھی میں جب آئی
پھولوں نے دی خوب دُھائی
پتی پتی پھول ہوا ھے
آخر اِس میں کس کی خطا ھے؟
لیلیٰ کی جب لاش ملی تو
اُس کے ہاتھ میں اک بستہ تھا،
پھٹا ہوا تھا
اور بستے کے اندر ماں کے خواب ادھورے۔ ۔ ۔
امن کہاں سے اب آئے گا؟
کون بھلا یہ بتلائے گا؟