جو جھوٹ موٹ نہیں ہیں قلم اٹھائے ہوئے
گھروں سے آئیں گے باہر علم اٹھائے ہوئے
ہمارے میں سے جو شاعر نہیں جگاڑئیے ہیں
وہ ہرجگہ پہ ملیں گے رقم اٹھائے ہوئے
ہیں ایک آپ کہ تھکتے نہیں اٹھاتے مفاد
اور ایک ہم ہیں جو اب تک ہیں غم اٹھائے ہوئے
یہ صاف بات ہے، واپس کبھی نہیں رکھے
ہمارے جیسے کسی نے قدم اٹھائے ہوئے
یہ کون پھر سے نیا ظلم ڈھانے آیا ہے
ابھی تو پل نہیں گزرا ستم اٹھائے ہوئے
یہیں جہاں پہ بہت ظلم ڈھانے والے ہیں
یہیں ملے گا خدا بھی کرم اٹھائے ہوئے
ہمارے جیسوں کی تقدیر بھی بدلتی نہیں
میں اب بھی پھرتا ہوں پچھلا جنم اٹھائے ہوئے
یہاں سے گزرا ہے اِک شاعرِ شکستہ سخُن
کئی زمانوں کا رنج و الم اٹھائے ہوئے
تمہارے وعدوں پہ بھی گرد پڑ گئی فرحت
ہمیں بھی عرصہ ہوا ہے قسم اٹھائے ہوئے