1. ہوم/
  2. غزل/
  3. فرحت عباس شاہ/
  4. دُعا گرفت میں ہے بد دُعا گرفت میں ہے

دُعا گرفت میں ہے بد دُعا گرفت میں ہے

دُعا گرفت میں ہے بد دُعا گرفت میں ہے
کوئی تو بولو کہ خلقِ خدا گرفت میں ہے

بجائے گھٹنے کے بڑھنے لگا ہے استحصال
اناج پہلے سے تھا، اب ہوا گرفت میں ہے

سمجھ کے خود کو پھرے ہے تُو بندہء آزاد
گرفت میں ہے تُو بےانتہا گرفت میں ہے

کئی دنوں سے ہیں نوحہ کُناں گل و بلبل
بتایا جاتا ہے بادِ صبا گرفت میں ہے

اُسے خبر ہے کہ ہم مشکلوں سے جی رہے ہیں
اسی لئے تو ہماری قضا گرفت میں ہے

گواہ رہنا ستم ہائے عشقِ شوریده
ہیں بلبلاتے کہ صبر و رضا گرفت میں ہے

رِہا ہوئے بھی تو بس چند آنسٶوں کے جلوس
وگرنہ شہر کی آہ و بکا گرفت میں ہے

اسی لئے تو یہ ہے مسخ ہو چکا اتنا
معاشرے کی سزا و جزا گرفت میں ہے

ہے چاروں سمت سے گھیرا گیا محبت کو
وفا گرفت میں، چشمِ خفا گرفت میں ہے