1. ہوم/
  2. غزل/
  3. فرحت عباس شاہ/
  4. سامنے ظلم کے ڈٹ کر جو کھڑا آدمی ہے

سامنے ظلم کے ڈٹ کر جو کھڑا آدمی ہے

سامنے ظلم کے ڈٹ کر جو کھڑا آدمی ہے
جبر کی رات کے سینے میں گڑا آدمی ہے

جھوٹ اور ظلم و ستم، حرص و ہوس، مکاری
ساری کی ساری بلاوں سے لڑا آدمی ہے

خالقِ کون و مکاں صدقے ترے لیکن جو
کائناتوں کی انگوٹھی میں جڑا آدمی ہے

کتنا بدبخت ہے وہ شہر کہ جس میں لوگو
پیسے والے کو کہا جائے بڑا آدمی ہے

میں اسے کتے سے زائد نہیں وقعت دیتا
جو کسی نیچ کے پیروں میں پڑا آدمی ہے

اک ذرا اس پہ بھروسہ کیا اور میں ڈوبا
یار میرا تو محض کچا گھڑا آدمی ہے

فالتو لوگوں میں شاعر بنا پھرتا ہے جو
اک تو بیکار ہے وہ، اس پہ چھڑا آدمی ہے

منہ پہ باندھے ہوئے رکھتا ہے ثقالت سی عجب
ہنس کے دیتا ہی نہیں کیسا سڑا آدمی ہے

مجھ میں اور اس میں یہی فرق بہت ہے فرحت
میں ہوں پھولوں سے لدا اور وہ جھڑا آدمی ہے

نہ تو ڈرتا ہے نہ جھکتا ہے کسی کے آگے
فرحت عباس بھی کیا کیسا کڑا آدمی ہے