کھونے نہیں دیا ہے جسے مِل نہیں رہا
گہرا نہیں ہے زخم مگر سِل نہیں رہا
ایسا نہیں کہ حُسن مجھے کھینچتا نہیں
ایسا نہیں کہ سینے میں اب دل نہیں رہا
اس نے کہا دکھائیے کچھ اختیارِ دل
میں نے کہا کہ اب مجھے حاصل نہیں رہا
ڈھے سا گیا ہوں پیری سے پہلے مثالِ خس
اور اس لیے کہ مدِ مقابِل نہیں رہا
ہے اشک سے قرینہء دیدار کو نشاط
رونق نہیں کہ رونقِ محفِل نہیں رہا
کارِ حیات زینہء رد و قبول ہے
موجوں میں آگیا ہوں تو ساحل نہیں رہا
اب روٶں جبر کو یا ہنسوں اختیار پر
اٹھا قدم تو لائقِ منزِل نہیں رہا
تقسیم ہی سے ملتی نہ تھیں فرصتیں مجھے
خوش ہوں کہ میرے ہاتھ مرا دِل نہیں رہا
بین السطور شوقِ اذیت تو دیکھئیے
ان کو گلہ ہے مجھ سے کہ بسمِل نہیں رہا
اک شعر کارگاہِ تخیل میں قید ہے
اک پھول کوکھ میں ہے مگر کِھل نہیں رہا
تم مجھ سے کہہ رہے ہو کروں زیر کائنات
میرے لیے تو عشق بھی مشکل نہیں رہا
مت گائیے فضول یہاں طائران ہجر
اب نوحہ ان کو نغمہء کامِل نہیں رہا