بجلی کے اڑھائی کروڑ صارفین کو 4 سے 7 روپے فی یونٹ ریلیف دینے کے لئے ترقیاتی فنڈز سے 50 ارب روپے نکالنے کا اعلان بھی غالباً بنا سوچے سمجھے اور 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی واہ واہ سمیٹنے کے لئے کیا گیا لگتا ہے جولائی تا ستمبر تین ماہ کے لئے دیئے جانے والے اس ریلیف سے بالفرض کم سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی کچھ تو دادرسی ہوگی لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ بجلی کے جو نرخ پچھلے دو تین برسوں میں بڑھاکر عوام کا بھرکس نکالا گیا اس کا بھی کسی کو احساس ہے کہ نہیں؟
گزشتہ روز وزیراعظم نے دو اہم باتیں کہیں اولاً یہ کہ کراچی بندرگاہ پر محصولات کی مد میں 12 سوارب روپے کی سالانہ چوری ہورہی ہے ثانیاً یہ کہ بجلی کے 27 سو ارب روپے کے واجبات کا معاملہ برسوں سے عدالتوں میں ہے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ کیا دونوں باتیں چند دن پہلے ہی ان کے علم میں آئیں یا وہ قبل ازیں بھی ان کے بارے میں جانتے تھے۔ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات سے گزشتہ دو حکومتیں بخوبی واقف تھیں پھر حکومت نے متعلقہ وزارت کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ ان مقدمات کو آگے بڑھانے میں کیا امر مانع ہے۔
کراچی بندرگاہ پر محصولات کی چوری بھی کل یا پرسوں شروع نہیں ہوئی اس حوالے سے ایک سیاسی جماعت ایم کیو ایم پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں کہ وہ بندرگاہ سے متعلقہ وزارت حاصل ہی اس لئے کرتی ہے کہ محصولات کی وصولی کے معاملے میں"کارروائی" ڈالی جاسکے۔ دیکھا جائے تو مصولات کی چوری ایک منظم کاروبار ہے اس کاروبار میں کون کب سے ملوث ہے اس کی تحقیقات ازبس ضروری ہے۔
کرپشن کے بڑے سوراخ بند کرنے کا اعلان سابق وزیراعظم عمران خان بھی کرتے رہے وہ وزیراعظم بننے سے قبل اٹھتے بیٹھتے یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ ملک میں روزانہ 12 سو ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر یہ کرپشن روک دی جائے تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں۔
ان کے ساڑھے تین برس کے دور میں کرپشن رکی یا نہیں لیکن وہ آئی ایم ایف کے پاس گئے اور ملکی تاریخ کا ریکارڈ قرضہ بھی لیا۔ اس عمل کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ 12 سو ارب روپے روزانہ کی کرپشن ان کے دور میں بھی جاری رہی ورنہ اپنے دعوے اور عزم کے مطابق وہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتے۔
وزیراعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ اب قربانی اشرافیہ کو دینا ہوگی لیکن اگر انہوں نے اپنی ہی حکومت کے رواں سال کے لئے پیش کردہ بجٹ کی دستاویزات کا بغور مطالعہ کرنے کی زحمت کی ہوتی تو یہ بات ان کے علم میں ہوتی کہ اس عوام کش بجٹ میں اشرافیہ اور بالادست اداروں کے لئے دودھ و شہد کی نہریں بہائی گئیں اور عوام کی کھال اتارنے کا سامان ہوا۔
ان حالات میں کوئی کیوں ان وعدوں اور دعوئوں کے ساتھ اشرافیہ کی قربانی والی بات پر اعتبار کرے؟
کم از کم 2 سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے لئے 50 ارب روپے کا ریلیف بجا ہے مگر بجلی استعمال کرنے والے صارفین کا گناہ کیا ہے یونٹوں کے استعمال کی درجہ بندی کیا ایک ظالمانہ پالیسی نہیں۔ پڑوس کے چاروں ملکوں میں سے کسی ایک ملک میں بھی یہ درجہ بندی موجود ہے لاہور سے نصف گھنٹے کی مسافت پر امرتسر میں بجلی عام صارف کے لئے جس نرخ پر دستیاب ہے اس نرخ پر تو ہمارے یہاں زرعی شعبہ کو بھی دستیاب نہیں۔
اصولی طور پر بجلی کی فی یونٹ ایک ہی قیمت مقرر کی جانی چاہیے جو صارف جتنی بجلی استعمال کرے اس کی قیمت ادا کردے۔ بدترین ظلم بجلی کے بلوں میں شامل مختلف اقسام کے ٹیکس ہیں۔
مثلاً بجلی کے ایک صارف کو اپنے بل میں استعمال شدہ بجلی کی قیمت کے ساتھ محصول بجلی، جنرل سیلز ٹیکس، پھر ایک اور جی ایس ٹی، فیول ایڈجسٹمنٹ سمیت 9 اقسام کے ٹیکس بھی ادا کرنا ہوتے ہیں۔ عوام لاکھ چیخیں شور مچائیں ہمارے پالیسی ساز اور عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومتیں ان کی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔
عشروں سے ایک ہی کہانی سنائی جارہی ہے ملکی و بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے آئی ایم ایف کا دبائو ہے۔ بدقسمتی سے عوام تو یہ پوچھنے کا حق بھی نہیں رکھتے کہ ملکی و بیرونی قرضے استعمال کہاں ہوتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہ یہ قرضے جن مدوں میں استعمال ہوتے ہیں ان میں تعمیروترقی کے اہداف سے عام شہری کو کوئی خوشی تو ہونی چاہیے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں حکومتی وسائل سے خدمت خلق کی بجائے کاروباری سوچ نے جگہ ہی نہیں لی بلکہ ان دو شعبوں میں تین عشروں سے کاروبار ہی ہورہا ہے۔ لوٹ کھسوٹ کے اس کاروبار کے تحفظ کے لئے صحت و تعلیم کو کاروبار بنانے والوں نے اپنے میڈیا ہائوسز بنالئے ہیں۔
اس طرح حکومتیں ان کے دبائو میں رہتی ہیں اب تو خیر سے ہائوسنگ کے شعبہ میں کاروبار کرنے والوں نے بھی ٹی وی چینل کھول لئے ہیں۔ مختلف کاروباری خاندانوں کے یہ میڈیا ہائوس عوامی حقوق کے تحفظ میں کردار ادا کرنے کی بجائے اپنے کاروباری مفادات کا تحفظ کرنے کے ساتھ پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
ہماری دانست میں حالات جس طرف بڑھ رہے ہیں اس کا کسی کو اداراک ہے نہ احساس۔ ملکی تاریخ کی بدترین مہنگائی، بجلی، گیس اور پٹرولیم کے ظالمانہ نرخ، ٹرانسپورٹ کے بے لگام کرائے، ان سب نے ملک کر ایک عام شہری کی جو درگت بنائی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
ایسا لگ رہا ہے کہ اندر ہی اندر جو لاوا پک رہا ہے یہ آتش فشاں پھٹا تو پورے نظام کی بنیادیں ہل کر رہ جائیں گی۔ اس لئے بہتر اور مناسب یہ ہے کہ اس طبقاتی نظام کی بلاتاخیر اصلاح کی جائے۔ عام شہری کو سکون سے جینے کا حق دیا جائے۔
بار دیگر عرض ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنے کا پندرہ روزہ سلسلہ اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ عوام دشمن پروگرام ہیں۔ حکومت غیرضروری مدوں میں سے رقوم کی کٹوتی کرے ڈیفنس پنشن واپس دفاعی بجٹ کا حصہ بنائے۔ مختلف اداروں کو سالانہ غیراعلانیہ فنڈز کی فراہمی کسی تاخیر کے بغیر بند کی جائے۔
ہر وہ ادارہ جو عوام کے خون پسینے کی کمائی سے فنڈز حاصل کرتا ہے اس کے مالیاتی امور پارلیمان میں زیربحث لانے کے ساتھ آڈیٹر جنرل کے دائرہ اختیار میں لائے جانا ازبس ضروری ہیں انٹرنل آڈٹ کا فراڈ اب ختم ہوجانا چاہیے۔
اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ مہنگائی اور دوسرے مسائل کی وجہ سے سنگین صورتحال کا کسی تاخیر کے بغیر احساس نہ کرے بلکہ اصلاح احوال کے لئے سنجیدہ اقدامات پر توجہ بھی دے۔