معاصر اخبارات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کیانی کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ آڈیو لیکس کیس میں مجھے پیغام دیا گیا کہ پیچھے ہٹ جائوں۔ سرویلنس طریقہ کار کی سکروٹنی نہ کروں۔ یہ پیغام کارروائی متاثر کرنے کے لئے دھمکی آمیز حربہ محسوس ہوا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور ا عوان کا کہنا ہے کہ ان کیمرہ بریفنگ کی استدعا قومی سلامتی کی وجہ سے کی گئی۔ اٹارنی جنرل کے مطابق وہ مداخلت کے تاثر کی نفی کرتے ہیں۔
معاصر اخبارات میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کے اپنے چیف جسٹس کو لکھے خط کے شائع ہونے والے مندرجات اور وفاقی وزیر قانون و اٹارنی جنرل کے جوابی بیانات ہر دو کو نظرانداز کرنا ازحد مشکل ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج صاحبان عدالتی عمل میں ریاستی اداروں کی مداخلت من پسند فیصلوں کے حصول کے لئے دبائو، خانگی امور کی جاسوسی جیسے سنگین الزامات لگاتے آرہے ہیں اس حوالے سے 6 ججز نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی ایک خط لکھا جس پر ازخود نوٹس لے لیا گیا۔
6 ججز کے خط میں جن معاملات کی نشاندہی کی گئی ان کے بارے میں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو ان کے دور میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی معرفت آگاہ کرنے کی بات تو کی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ان کی شکایات کا نوٹس کیوں نہیں لیا۔ یا یہ کہ کیا انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی معرفت شکایت کرنے والے ججز کو کوئی جوابی پیغام بھجوایا تھا؟
اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ تقریباً سال سوا سال خاموش رہنے کے بعد اچانک ان معاملات کو زیربحث لانے اور چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھنے کا پس منظر کیا ہے۔
کیا اس کی وہی تین وجوہات ہیں جو پچھلے چند ماہ سے زیربحث تھیں۔
اولاً اسلام آباد ہائیکورٹ کے بعض جج صاحبان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست اور بعض شکایات پر کارروائی کا حتمی مرحلے میں ہونا؟
ثانیاً بعض سیاسی مقدمات کی سماعت کے دوران دیئے گئے ریمارکس سے جنم لینے والی بحث اور ایک معزز جج کی قومی اسمبلی کے موجودہ اپوزیشن لیڈر سے رشتہ داری اور ایک اور معزز جج کے ماضی کے سیاسی تعلق کی بنیاد پر ان سے سیاسی مقدمات کی سماعت سے الگ ہونے کی درخواست پر ردعمل ہے۔ نیز یہ کہ ایسی درخواستیں نہ صرف مسترد ہوئیں بلکہ درخواست گزار کو جرمانہ بھی کیا گیا۔
تیسری وجہ ایک معزز جج کے امریکی گرین کارڈ ہولڈر ہونے کا معاملہ سامنے آنے پر اٹھنے والے سوالات ہیں۔ امریکی گرین کارڈ کے معاملے پر شخصی اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی بطور ادارہ وضاحت غیرتسلی بخش تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی گرین کارڈ محض قیام امریکہ یا امریکہ آنے جانے کی بنیادی سہولت نہیں بلکہ گرین کارڈ امریکی شہریت کے حصول کے طریقہ کار کا ایک مرحلہ ہے۔
اس لئے محض یہ کہہ دینا کہ معزز جج کو ان کی ذاتی قابلیت پر امریکی گرین کارڈ پیش کیا گیا درست نہیں کیونکہ گھر بیٹھے محض قابلیت پر گرین کارڈ کا مل جانا بذات خود سوالات کو جنم دیتا ہے۔
کہا یہ جارہاہے کہ ان تین معاملات پر جج صاحبان کی برہمی کا اصل پس منظر کچھ اور ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ خود جج صاحبان کی تقرری کے معاملے میں بھی تو ایجنسیوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ آج تک کسی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا؟
جبکہ اصولی طور پر ججز تقرری کے معاملے میں پارلیمان کے سوا کسی کا کردار نہیں ہونا چاہیے۔ اسی اثنا میں یہ تاثر بھی ابھرا کہ سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے دور میں جن ججز کی تقرری عمل میں لائی گئی ان کا جھکائو عمران خان کی طرف ہے اس رائے کے درست یا غلط ہونے پر بحث سے زیادہ اہمیت بعض سیاسی شخصیات کے مقدمات میں عبوری ضمانتوں میں دوسال سے مسلسل توسیع جیسی سہولت کسی عام سائل کو بھی حاصل ہے۔
اسی نوعیت کا سوال نیب قوانین والے کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کو عدالت میں کسی بھی طرح پیش کرنے اور بات کرنے کی سہولت کی فراہمی کے لئے ظاہر کی گئی جذباتیت پر بھی اٹھ رہے ہیں۔
اندریں حالات تو یہ رائے درست محسوس ہوتی ہے کہ اس وقت ملک کے تمام اداروں میں پسندناپسند کا کھیل جاری ہے اس رائے کے حاملین حال ہی میں ایک ادارے کی 2 اہم شخصیات سے لئے گئے استعفے کو بطور جواز پیش کررہے ہیں۔
خدا کرے کہ اداروں کے اندر پسندوناپسند کی بنیاد پر محاذ آرائی کی باتیں غلط ہوں اور یہ کہ ہر کس و ناکس ذاتی پسندوناپسند کی بجائے قانون کی بالادستی کو اہم سمجھے ہی نہیں بلکہ اس کا عملی ثبوت بھی دے، لیکن چار اور جو باتیں اور بحثیں ہورہی ہیں ان سے صرف نظر ممکن نہیں۔ اس پر دو آراء نہیں کہ کسی عام یا بااختیارشخص یا ادارے کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
بہر طور جسٹس بابر ستار نے اپنے خط میں جو مبینہ الزامات لگائے ہیں ان کی تحقیقات بہت ضروری ہیں۔ اسی طرح اس امر کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ ان مبینہ الزامات کی طرح جو دوسری باتیں زبان زد عام ہیں اور ان کے حق میں دستاویزات بھی پیش کی جارہی ہیں وہ درست ہیں یا عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش؟
ہم امید کرتے ہیں کہ ہر دو معاملات کی آزادانہ تحقیقات کا کسی تاخیر کے بغیر اہتمام کیا جانا چاہیے تاکہ عوام پورا سچ جان سکیں۔