1. ہوم
  2. کالمز
  3. حیدر جاوید سید
  4. کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے

کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے

قصہ پرانا ہے مگر ہے دلچسپ، آپ بھی پڑھ لیجئے۔ اس قصے نے یادوں کے قبرستان سے نکل کر دل و دماغ میں اودھم اس ایک شادی کی وجہ سے مچایا جو 5جنوری 2022ء کو بہاولپور میں ہوئی۔ یہ شیخ لیاقت حسین مرحوم کے صاحبزادے عامر لیاقت حسین کی تیسری شادی ہے۔ چوتھی یا پانچویں بھی ہوتی تو ہمیں یا آپ کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہیے تھا۔اس شادی کو لے کر سوشل میڈیا پر دادوتحسین، حسد اور بدزبانیوں کے طوفان برپا ہیں۔ عامر لیاقت حسین سے ان کے دوسرے بھائی عمران لیاقت حسین یاد آگئے۔

مرحوم اب اپنے دفترِ حساب کے ساتھ وہاں ہیں جہاں بالآخر سب کو جاناہے۔ موصوف کچھ عرصہ ایران میں مقیم رہے ان کا دعویٰ تھا کہ وہ "درسِ خارج" کی تعلیم حاصل کرنے ایران گئے تھے۔ درس خارج مکتب جعفریہ کے حوزہ علمیہ (مدارس) میں سب سے اعلیٰ درجہ کی کلاس ہے۔عمران لیاقت حسین ایران سے اپنے "بعض امور" کی وجہ سے نکالے گئے مگر ان کا دعویٰ تھا کہ ایرانی ان کے درجہ اجتہاد پر فائز ہونے سے حسد کرنے لگے تھے کیونکہ انہوں نے قدامت کے جمود کو توڑتے ہوئے کچھ فتاوے دیئے تھے۔

ایرانی اس پر (ایران کا مذہبی و علمی حلقہ یا یوں کہہ لیجئے اہل مدارس) کیا کہتے تھے وہ الگ داستان ہے۔ ہمارے ہاں کہتے ہیں مرنے والوں کی صرف خوبیاں بیان کرنی چاہئیں اس لئے ایرانی اہل مدارس کے موقف کو اٹھارکھتے ہیں۔

عمران لیاقت حسین ایران سے پاکستان واپس لوٹے تو خود کو لبرل آیت اللہ کے طور پر پیش کیا۔ اب یہ لبرل والی تو " آیت اللہ" میں "نئی پخ" تھی، ہضم کیسے ہوتی۔ بہرطور کچھ لوگوں کو ہضم بھی ہوئی انہوں نے موصوف کو "قلندرِ زماں " کے طور پر پیش کیا، عقیدت مند بنے، کاروبار حیات خوب چلا چمکا۔اُن دنوں ملک میں قبلہ جنرل سید پرویز مشرف کاظمی دہلوی سرکار کی حکومت تھی۔ لبرل ازم کا کاروبار خوب چمکا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ سرکار کی سرپرستی میں لبرل صوفیوں کی جو تنظیم بنی اس کے سربراہ چودھری شجاعت حسین ٹھہرے۔ چودھری شجاعت حسین وہی جو چالیس روزہ وزیراعظم کے طور پر تاریخ کی یادگار ہیں اور آج کل ق لیگ کے سربراہ۔

خیر ہوا یہ کہ موصوف لبرل آیت اللہ عمران لیاقت حسین نے دیوان ابو طالبؑ اور دیوان سیدہ فاطمہؑ کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔ بڑی دھوم ہوئی اس کتاب کی۔ ہم ان دنوں پشاور کے ایک اخبار میں خدمات سرانجام دیتے تھے۔ لاہور میں لبرل آیت اللہ کی اس کتاب کی رونمائی کے موقع پر کچھ دوستوں کی مہربانی سے ہمیں بھی یاد کیا گیا۔ ہم بھی حاضر ہوئے اور عرض بھی کیا کہ یہ دونوں دیوان (دیوان ابو طالب اور دیوان فاطمہؑ) جواب ایک کتاب کی صورت میں طبع ہوئے ہیں انکے اصل مترجم علامہ سید فیض عالم نقوی البخاری دکنی مرحوم ہیں۔ یاد دلایا کہ اگر ہماری یاداشت دھوکہ نہیں دے رہی تو یہ دیوان حیدر آباد دکن سے علامہ دکنی نے 1884ء میں خود شائع کروایاتھا۔ بعدازاں انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں مکتبہ کشور لکھنو سے بھی طبع ہوا۔ (دیوان کے دونوں نسخے ہماری آپا جان سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ کے کتب خانے میں موجود تھے زیارت بھی کی اور استفادہ کا شرف بھی حاصل ہوا)

بہرطور ہمارے اس موقف پر لبرل آیت اللہ اور ان کے عقیدت مند ناراض ہوئے اور "خوب" ہوئے۔خیر یہ قصہ بھی یاد آگیا اس لئے رقم کردیا۔ جب یہ معاملہ ہوا تھا تب ایک تفصیلی کالم بھی لکھا تھا۔

اب آیئے اس قصے کی طرف جو کالم لکھنے کی اصل وجہ بنا وہ کچھ یوں ہے کہ ہماری خاتون دوئم (دوسری اہلیہ) جو ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں، تب اسٹیٹ بینک پاکستان کے لاہور آفس میں ہوا کرتی تھیں۔ ہم پشاور کے ایک اخبار میں کام کرتے تھے۔ معاہدہ کے مطابق 15دن پشاور اور 15دن لاہور آفس میں فرائض سرانجام دیتے۔ مرغزار آفیسر کالونی ملتان روڈ پر رہائش تھی۔

ایک صبح ہم دونوں حصول روزگار کے مقام پر جانے کے لئے گھر سے نکلے او دوسری گلی میں ڈاکو بھائی جان نے پسٹل کی زد پر لوٹ لیا۔ اس ڈکیتی کا پرچہ کروانے کے لئے دن بھر کی بھاگ دوڑ کے بعد اس وقت کے ایڈیشنل آئی جی چودھری منظور کی سفارش کروانا پڑی۔ڈکیتی کے پرچے کے لئے ایک گواہ کی ضرورت تھی ایس ایچ او ہنجروال لاہور کا موقف تھا ڈاکو نے آپ دونوں (میاں بیوی) کو لوٹاہے کم از کم ایک گواہ تو ہو۔

ہماری ملازمہ کے بھائی کو گواہ بنایا گیا۔ ان حضرت نے ذات کے خانہ میں خود کو آرائیں لکھوایا۔ حالانکہ چند دن قبل انکے ایک گھریلو تنازع کے ہنگامہ میں پتہ چلا تھا کہ یہ "دیندار" ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ہماری ملازمہ نے اپنا شناختی کارڈ بنواتے وقت خود کو راجپوت لکھوایا۔اس کا ایک اور بھائی ہمارے قیام راولپنڈی کے دوران ہمارے ہاں ملازم تھا وہ نیک بخت خود کو دیندار کہتا کہلواتا تھا۔

ذاتوں کے اس قصے کو لے کر ہم نے جنرل پرویز مشرف کے صدارتی انتخابات کے دوران "چودھری نیامت علی دیندار آرائیں راجپوت" کو صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کرتے ہوئے دو تین کالم بھی لکھے پھر ہوا یوں کہ ایک دن دو تین ایجنسیوں کے اہلکاران بحریہ ٹائون راولپنڈی میں ہماری قیام گاہ پر نازل ہوئے اور خوب گپ شپ رہی۔

وہ جنرل پرویز مشرف کے مدمقابل (کالم میں) صدارتی امیدوار "چودھری نیامت علی دیندار آرائیں راجپوت) کی تلاش میں تھے۔ لمبی گپ شپ کے دوران بہت مشکل سے ان حضرات کو سمجھاپایاکہ یہ امیدوار صرف اخباری کالم کی حد تک ہے، حقیقت میں نہیں۔

ان کوڑھ دماغوں کو بات سمجھ میں آئی گو مشکل سے لیکن جب سمجھ میں آئی تو کہنے لگے "پیر جی تسیں ساڈیاں دوڑاں بڑیاں لوائیاں نے"۔ افسر کہتے ہیں اخبارمیں کالم چھپ رہے ہیں امیدوار نے کاغذات داخل نہیں کروائے تم لوگ شرم سے ڈوب مرو اتنا بھی پتہ نہیں چلا سکے کہ چودھری نیامت علی دیندار ارائیں راجپوت نے آخر کس جگہ ارکان اسمبلی سے خطاب کیا ہے۔

بہرطور قصہ نمٹ گیا مگر ہمارے چودھری نیامت علی دیندار آرائیں راجپوت نے خود پر لکھے چاروں کالم اخبارات سمیت سنبھال کر رکھ لئے۔یقیناً نیامت علی کے پاس وہ اب بھی محفوظ ہوں گے۔ یہ سارا قصہ عامر لیاقت کی تیسری شادی پر اہلیہ کی ذات کے حوالے سے کیئے گئے دعویٰ پر یاد آیا۔ ان کے دعوے کے پرخچے چند گھنٹوں میں اڑ گئے۔

فقیر راحموں اوراس کے دوست ڈھونڈ ڈھانڈ کر لودھراں سے عامر لیاقت کی تیسری اہلیہ کا خاندان اور شجرہ سامنے لے آئے۔ لیکن اس دوران سوشل میڈیا پر عامر لیاقت کی تیسری اہلیہ کی اعلان کردہ ذات کو لے کر جو لکھا بولا گیا اس سے بہتوں کے دل زخمی ہوئے۔

گو اس تنگ نظری اور تعصب کا سامنا پہلی بار نہیں ہوا۔ یہ عجیب بات ہے کہ برصغیر میں ذات پات کے نظام میں ہزاریوں کے جکڑے خاندانوں کی نئی نسل کیسے دوسروں کا تمسخر اڑاتی ہے۔ جس معاشرے میں حالات سے مالدار ہوجانے والا امیر غریب رشتہ ادروں کو گائوں کے کمی خاندانوں کے طور پر پیش کرتا ہو وہاں ذات پات کا تعصب اور اس کی بنیاد پر دوسروں پر رکیک حملے اچھنبے کی بات نہیں۔

ہاں یہ ستم ضروری ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو حقیقت کا علم ہوچکا تھا لیکن پھر بھی دونوں جگہ عامر لیاقت کے اعلان کو دستاویزات پر اہمت دی گئی رہی سہی کسر ہمارے دو دوستوں کے درمیان سوشل میڈیا پر شروع ہوئی جنگ نے نکال دی۔

خیر چونکہ ہمیں اس تنازعہ اور دوستوں کے درمیان ہوئی تلخ نوائی پر نہیں بلکہ سستے فقرے بازوں پر بات کرنا تھی اس لئے یہی عرض ہے کے اندر کی نفرت اچھالتے وقت یہ ضروریاد رکھا جانا چاہیے کہ انسانی سماج خصوصاً برصغیر میں گو ذات پات کی اہمیت ہے مگر اصل اہمیت ہمیشہ سے شخصی کردار اور اوصاف کو حاصل رہی اور رہے گی،

فرد یا خاندان کا ان کی نسب کی بنیاد پر احترام اچھی بات ہے لیکن اس طرح احترام کے مستحق وہ خاندان بھی ہیں جن کا ذکر آتے ہی ہمارے ہاں کے خاندانیوں کے چہروں پر حقارت ناچنے لگتی ہے۔