1. ہوم
  2. کالمز
  3. حیدر جاوید سید
  4. سانحہ مچھر کالونی۔ ایک جھوٹ دوبندے کھاگیا

سانحہ مچھر کالونی۔ ایک جھوٹ دوبندے کھاگیا

ملک میں پھل پھول رہی عدم برداشت کی بنا پر بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات کے رجحان کی بدولت آئے روز افسوسناک سانحہ رونما ہوتا ہے ذرائع ابلاغ ایک آدھ دن عدم برداشت اور تشدد کے بدترین مظاہرے سے جنم لینے والے المناک سانحہ کی خبر قارئین اور ناظرین تک پہنچاکر فرض پورا کرلیتے ہیں تو متعلقہ ضلع کی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کی جانب سے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھنے کے اعلانات بھی اعلانات تک ہی محدود رہتے ہیں۔

ہرچند دن بعد کوئی نہ کوئی ایسا پرتشدد واقعہ ہوتا ہے جس میں بے گناہ انسان کی جان چلی جاتی ہے۔ چند دن قبل کراچی کے ایک علاقے مچھر کالونی میں ایک موبائل کمپنی کے سگنلز چیک کرنے کے لئے کام کرنے والے دو ماہرین پر بچوں کے اغوا کا الزام لگایا گیا تو مقامی ہجوم کچھ سوچے سمجھے بغیر ان دو انجینئرز پر پل پڑا اور وہ اپنی جان سے ہار گئے۔

اس المناک سانحہ کی ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ وقوعہ والے علاقے کی ایک مسجد کے پیش امام نے متعلقہ موبائل کمپنی کو پہلے متعدد درخواستیں دلوائیں کہ ہمارے علاقے میں آپ کی کمپنی کا نیٹ ورک درست طور پر کام نہیں کررہا پھر اس امر کی تحریری خواہش ظاہر کی کہ موبائل کمپنی ان کے گھر کے ساتھ والے ان کی ملکیتی احاطے میں اپنا ٹاور نصب کرے تاکہ نیٹ ورک کے حوالے سے شکایات دور ہوں۔

ان درخواستوں کے بعد کئے گئے ابتدائی سروے کے بعد ماہرین نے کمپنی کو رپورٹ دی کہ نیٹ ورک کے درست کام نہ کرنے کے حوالے سے بھجوائی گئی درخواستوں میں غلط بیانی کی گئی ہے۔ ابتدائی سروے کے بعد گروپوں کی صورت میں جب دوبارہ شکایات آئیں تو متعلقہ کمپنی نے اپنے سینئر ماہرین کو صورتحال کے جائزے اور نیٹ ورک سروس کے سروے کے لئے اس علاقے میں دوبارہ بھیجا۔

کمپنی کے 2 سینئر انجینئرز نے علاقے میں پہنچ کر ابھی چند مقامات پر ہی آلات نصب کئے تھے کہ مسجد سے اعلان ہوا کہ ایک مشکوک گاڑی میں سوار دو افراد بچوں کو اغوا کرنے کے لئے علاقے میں داخل ہوچکے ہیں۔ مسجد سے ہونے والے اس اعلان نے موبائل کمپنی کے انجینئرز کی جان لے لی۔ وقوعہ والے علاقے میں یہی دو افراد اور ان کی گاڑی اجنبی تھے۔

اعلان چونکہ مسجد میں ہوا تھا، ہجوم نے آئو دیکھا نہ تائو ان پر پل پڑا۔ ہجوم کے وحشیانہ تشدد سے دونوں انجینئرز جاں بحق ہوگئے بعدازاں ہجوم نے ان کی گاڑی کو آگ لگادی۔ اس دلخراش واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی سائوتھ کراچی کو طلب کرلیا۔

عدالت عالیہ کے علم میں لایاگیا کہ مشتعل ہجوم نے ابتداً مقتولین کو ڈکیت اور بعد ازاں بچوں کا اغواکار بتایا جبکہ دونوں بیانات کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ ہجوم جمع کرنے کے لئے اعلان مسجد کے لائوڈ سپیکر سے ہوا تھا۔ اعلان کرنے کی حقیقی وجوہات اور دیگر شواہد بھی عدالت میں پیش کئے گئے۔

مچھر کالونی کراچی کا یہ سانحہ محض غلط فہمی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک شقی القلب شخص نے موبائل ٹاور اپنے احاطے میں لگوانے کی کوششوں میں ناکامی پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اہل علاقہ کو پرتشدد کارروائی کے لئے اکساکر 2 اعلیٰ تعلیم یافتہ انسانوں کی جان لے لی۔

اس المناک سانحہ کا پس منظر اور مسجد سے جھوٹا اعلان کرنے والے پیش امام کے مذموم مقصد کے سامنے آنے کے بعد یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ سماجی رویوں اور روزمرہ معاملات کے حوالے سے من حیث القوم ہم کہاں کھڑے ہیں۔

افسوس کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہرگز نہیں۔ پچھلے دو ماہ (ستمبر اور اکتوبر) کے دوران صرف کراچی میں ہجوم کے تشدد سے 7 افراد جاں بحق ہوئے۔ ملک کے دوسرے بعض شہروں میں اس نوعیت کے 150واقعات رپورٹ ہوئے ان میں چند میں مضروب یا جاں بحق ہونے والوں پر توہین مقدسات کا الزام لگاکر تشدد کیا گیا تھا چند پر چوری کا اور بعض پر بچوں کے اغوا کا۔

بدقسمتی سے عدم برداشت کے خاتمے کے لئے سیاسی و سماجی کارکنوں نے نہ صرف اپنا فرض ادا نہیں کیا بلکہ حکومت اور اضلاع کی انتظامیہ بھی ادائیگی فرض سے محروم رہی۔ توہین مقدسات اور دوسرے الزامات کے تحت لوگوں کو اکساکر کسی ناپسندیدہ شخص یا مخالف کو تشدد کا نشانہ بنوانے کے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل سیالکوٹ میں ایک غیر ملکی ماہر کو توہین مقدسات کا مرتکب قرار دے کر ہجوم نے قتل کیا تھا اس سانحہ کے بعد وفاقی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کسی پرتشدد واقعہ کے ذمہ داران اور الزام لگانے والوں سے کوئی رعایت نہ برتی جائے۔ اس وعدے کا کیا ہوا؟

یہ سوال آج پوچھنا بظاہر اس لئے درست نہیں ہوگا کہ اب وہ حکومت نہیں رہی لیکن ملک کا قانون تو تبدیل نہیں ہوا کیوں نہیں قانون اپنی طاقت منواتا اور کیا وجہ ہے کہ سیاسی و سماجی کارکن و رہنما اس حقیقت کا ادراک کرتے کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رجحان اور تشدد کے خاتمے کے لئے انہیں میدان عمل میں اتر کر عام شہریوں کو یہ باور کرانا چاہیے کہ جھوٹی سچی اطلاع پر پُرتشدد کارروائی کا کوئی اخلاقی جواز ہے نہ ہی اسلام اور ملکی قانون اس کی اجازت دیتے ہیں۔

کراچی کے حالیہ سانحہ کا سندھ ہائیکورٹ نے ازخود نوٹس لیا تو حقائق ذرائغ ابلاغ اور عوام کے سامنے آئے۔

ہمارے خیال میں متاثرہ خاندانوں کا یہ مطالبہ بجا طور پر درست ہے کہ مسجد سے جھوٹا اعلان کرکے لوگوں کو تشدد پر اکسانے والے شخص کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ اسی طرح اہل اقتدار اور سماجی رہنمائوں کو بھی چاہیے کہ پرتشدد واقعات کی روک تھام کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔