ڈانٹ کر جب کہہ دیا "اوئے نہیں"
رات پھر ہم دیر تک سوئے نہیں
جج کو طوطے نے کہا، "عالی جناب!"
نام میں"ت" ہے مرے طوئے نہیں
حالِ دل، گو، مضحکہ آمیز تھا
قہقہے اس کے تھے، ہم روئے نہیں
زخم پر کتنا نمک چھڑکاؤ گے
آدمی ہیں جان! گنڈوئے نہیں
وہ شکم سیری تھی روزہ کھول کر
برتنوں کے ڈھیر تھے، دھوئے نہیں
موتیا، اینجائنا، کروالیا
دیدہ و دل عشق میں کھوئے نہیں
ہم بھی اڑیل بیل تھے، سو زندگی!
تیرے جتنے بوجھ تھے، ڈھوئے نہیں
سوچتے ہیں، "کل" کا یوں، پیرِ مغاں
لڑکیاں تاڑیں گے گر موئے نہیں