عشق سے، بینک میں، بالوں کا، بچا کچھ بھی نہیں
مطمئن بیٹھا ہے وہ، جیسے ہوا کچھ بھی نہیں
فیض نے رات کہیں خلد میں غالب سے کہا
ان فرشتوں کی بنی مے میں مزا کچھ بھی نہیں
لے گئی تیز ہوا، آخری پاجامہ مرا
"اس کو کھو کر تو مرے پاس رہا کچھ بھی نہیں"
اولاََ عشق کیا ہم سے، سبب کوئی نہ تھا
اور جب چھوڑ دیا، اس کی وجہ کچھ بھی نہیں
گفتگو، وصل، وفا، لطف و کرم، دلداری
اس کے نزدیک محبت میں روا کچھ بھی نہیں
درد پر قوم کے یہ چارہ گروں کے نسخے
صرف تشخیص کی باتیں ہیں، دوا کچھ بھی نہیں
رات کے تین بجے جاگ کر غزلیں لکھنا
اور یہ سوچتے رہنا کہ بجا کچھ بھی نہیں
دل کی چوری پہ اسی آن عدالت میں گئے
تس پہ معلوم ہوا اس کی سزا کچھ بھی نہیں
"آپ اچھے ہیں مگر عشق کی باتیں نہ کریں"
نامہء یار میں مرقوم نیا، کچھ بھی نہیں
دل جو بھر آئے تو، بارش میں چلیں، روتے ہوئے
یوں لگے خلق کو، آنکھوں سے گرا، کچھ بھی نہیں