نظم خلقت کو عطا ہونے کو ہے
ایک ادبی معجزہ ہونے کو ہے
اس شکم میں قید جڑواں شعر تھے
اک ہوا ہے، دوسرا ہونے کو ہے
پہلے مجھ میں بولتا تھا کامیو
اب ظہورِ کافکا ہونے کو ہے
بر سرِ پیکار ہیں، اہلِ سخن
فاعلاتن فاعلا ہونے کو ہے
لکھ رہے ہیں رجزیہ سی مثنوی
یعنی گولا توپ کا ہونے کو ہے
مہر، زوجہ کا مؤجل ہے مگر
شاعری کا حق ادا ہونے کو ہے
مصرعہ اول غزل کا پڑھ چکے
واہ، پھر پڑھئے، بجا ہونے کو ہے
شاعری عظمت کو اپنی چھو چکی
اب سخن کا خاتمہ ہونے کو ہے
صورِ اسرافیل ہے، گویا غزل
صاحبو! محشر بپا ہونے کو ہے
منقسم در منقسم اہلِقلم
ان کا تھا اور آپ کا ہونے کو ہے
کثرتِاصراف سے تیغِ سخن
دیکھنے میں استرا ہونے کو ہے
اس کے گھر شاعر بڑا پیدا نہ ہو
الحذر! جو والدہ ہونے کو ہے