عطاء الحق قاسمی کا شوقِ آوارگی ہمیشہ سے میرے لئے ایک راز تھا۔ میں سالہا سال سے یہ جاننے کی کوشش میں تھا کہ قاسمی صاحب کی جہاں گردی کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے؟ وہ ملکوں ملکوں کس کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ایک دو مرتبہ میں بھی ان کی آوارگی میں شامل ہوگیا تاکہ ان کے شوق کی اصل وجوہات کو ذرا قریب سے دیکھ لوں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے میں نے کئی "سرگوشیاں" بھی کیں لیکن قاسمی صاحب نے مسکرا کر ٹال دیا اور میں ان کا ہمسفر بن کر بھی ان کی آوارگی کے راز کو نہ پا سکا لیکن آخر کار عطاء الحق قاسمی نے اس راز سے خود ہی پردہ اٹھا دیا ہے۔ انہوں نے اپنے کالم کے ذریعہ اطلاع دی ہے کہ وہ سلیم اور جمیل نامی دو افراد کو مدت سے تلاش کر رہے تھے۔ خاص طور پر سلیم کی تلاش قاسمی صاحب کو کے ٹو تک بھی لے گئی حالانکہ وہاں پہنچنے کے لئے تو اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے۔ ان راستوں پر قاسمی صاحب کی سلیم نامی ایک شخص سے ملاقات بھی ہوئی لیکن یہ وہ سلیم نہیں تھا جس کی انہیں تلاش تھی۔ وہ دراصل اس سلیم کو تلاش کر رہے تھے جس کا ذکر قاسمی صاحب نے اپنے بزرگوں کی دعائوں میں سنا تھا۔ یہ بزرگ عطاء الحق قاسمی کے شوقِ آوارگی سے پریشان ہوکر اکثر انہیں دعا دیا کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں "عقل سلیم" عطا کرے۔ عقل کی اس نایاب قسم کو دیکھنے کے لئے ہمارے قاسمی کو سلیم کی تلاش تھی۔ وہ جن سلیموں کو ملے وہ سب کے سب بے وقوف تھے۔ ایک سلیم تو ایسا بھی تھا جسے کسی جادوگر نے بوتل میں بند کرکے دریا میں پھینک دیا تھا۔ قاسمی صاحب کو عقل والا سلیم ملا اور نہ ہی وہ جمیل ملا جس کا صبر بڑا مشہور تھا اور بزرگ اپنی دعائوں میں اس کے یعنی صبرِ جمیل کا بھی ذکر کیا کرتے تھے۔ قاسمی صاحب کا کالم پڑھ کر مجھے شدید افسوس ہوا۔ مجھے ایسا لگا کہ پاکستان کے اس عظیم کالم نگار نے اپنی زندگی کے کئی سال ضائع کر دئیے۔ کاش کہ وہ مجھے بتا دیتے کہ انہیں عقلِ سلیم والے سلیم کی تلاش ہے تو میں چپکے سے ان کے کان میں اس سلیم کا ایڈریس بتا دیتا اور اگر قاسمی صاحب اصرار کرتے تو انہیں ایسے دو تین سلیموں کے فون نمبر بھی دے دیتا۔ سلیم کو مل کر وہ جمیل کا راز بھی پا لیتے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سلیم اور جمیل کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ اس تعلق کے بارے میں آپ کو بعد میں بتائوں گا لیکن پہلے یہ بتا دوں کہ جس طرح میرے محترم قاسمی صاحب کو سلیم اور جمیل کی تلاش تھی اسی طرح مجھے بھی عرصہ دراز سے دو اشخاص کی تلاش ہے۔ ایک کا نام صادق اور دوسرے کا نام امین ہے۔ صادق اور امین کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے بہت سال پہلے مجھے سلیم اور جمیل مل گئے تھے۔ جن سلیموں کو میں جانتا ہوں ان میں عقل سلیم تو ہوتی ہے لیکن ان کا نام سلیم نہیں ہوتا۔ یہ سلیم عام طور پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے آس پاس پائے جاتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ پاکستان کے فوجی آمر اور جمہوریت پسند حکمران، دونوں ہی ان کے اشاروں پر ناچنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ان کی عقل سلیم کا کرشمہ دیکھئے کہ یہ کوئی سیاسی جدوجہد کرتے ہیں نہ الیکشن لڑتے ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ قریبی تعلق کے بل بوتے پر بڑی آسانی سے کبھی وزیر خزانہ اور کبھی مشیرِ خزانہ بن جاتے ہیں۔ آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ میں کن سلیموں کی بات کر رہا ہوں۔ جی ہاں میرا اشارہ حفیظ شیخ ہی کی طرف ہے جن کی عقلِ سلیم کا پہلا ڈنکا جنرل پرویز مشرف کے دور آمریت میں بجا، پھر آصف علی زرداری کی جمہوریت نے ان کا ڈنکا بجایا اور آج کل وہ عمران خان کی تبدیلی کے پیامبر بنے بیٹھے ہیں۔ آپ خود ہی سوچئے کہ جس زرداری کو عمران خان صبح و شام ڈاکو کہتا ہے اسی زرداری کے وزیر خزانہ کے ہاتھ میں عمران خان نے اپنا خزانہ دیدیا ہے۔ اس وزیر خزانہ کی عقل سلیم کا پوری دنیا میں آج سے نہیں پچھلے کئی سال سے ڈنکا ہے لیکن نجانے یہ ڈنکا عطاء الحق قاسمی کے کانوں میں کیوں نہ بجا۔
اب میں جناب قاسمی صاحب کو بتاتا ہوں کہ سلیم اور جمیل کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ عقل سلیم والے یہ صاحبان جب بھی ہمارے وزیر خزانہ بنتے ہیں تو ڈالر اوپر چڑھنے لگتا ہے اور روپیہ نیچے گرنے لگتا ہے۔ جب روپیہ نیچے گرتا ہے تو قوم گریہ و زاری شروع کر دیتی ہے اور مہنگائی کا رونا رونے لگتی ہے، ایسے میں یہ عقل سلیم والے صاحبانِ ا قتدار قوم کے لئے صبرِ جمیل کی دعائیں شروع کر دیتے ہیں اور قوم کے پاس بھی ایک دوسرے کے لئے صبرِ جمیل کی دعا کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ حفیظ شیخ کی عقل سلیم نے پہلے پرویز مشرف کو بدنام کیا، پھر آصف علی زرداری کو رسوا کیا اب عمران خان کی باری ہے۔ فی الحال عمران خان کو اپنے لئے کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا اس لئے ڈالر 150 روپے کا ہونے کے باوجود وہ قوم کو بار بار یہی کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں اور ہم جیسوں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم قوم کو ناامید نہ کریں لیکن کیا کریں ہم میں عقل سلیم کی کمی ہے۔ ہم دن کو رات اور رات کو دن کیسے ثابت کریں؟ ہمیں اس صادق اور امین کی تلاش ہے جس کا ذکر آئین پاکستان کی دفعہ 62 میں ہے۔ یہ صادق اور امین ہماری عدالتوں کو نظر آ چکا ہے لیکن ابھی تک ہمیں نظر نہیں آیا، شاید ہماری نظر کمزور ہو چکی ہے۔ ہم نے اس صادق اور امین کو بلاول بھٹو زرداری کی افطار پارٹی میں بھی تلاش کیا لیکن وہاں بھی نہیں ملا۔ اس افطار سے ایک رات قبل میں نے مولانا فضل الرحمٰن سے پوچھا کہ اگر سپریم کورٹ نواز شریف کو لندن میں علاج کی اجازت دے دیتی تو کیا مسلم لیگ (ن) احتجاجی تحریک کی دھمکی دیتی؟ مولانا صاحب خاموش رہے۔ میں نے پھر پوچھا کہ عید کے بعد اگر مسلم لیگ (ن) کو ریلیف مل گیا تو پھر آپ کیا کریں گے؟ مولانا صاحب گویا ہوئے کہ کوئی ہمارے ساتھ آئے یا نہ آئے ہم تو دھرنا دینے اسلام آباد آنے والے ہیں۔ قاسمی صاحب کو سلیم اور جمیل نہیں ملے مجھے صادق اور امین نہیں ملے شاید اس لئے کہ ہمارا زیادہ تعلق منو بھائی جیسے گنہگار انسانوں کے ساتھ رہا جو تمام عمر دکھی انسانیت کی خدمت کرتے رہے۔ آخری دنوں میں وہ تھیلیسیمیا، ہیمو فیلیا اور بلڈ کینسر میں مبتلا بچوں کے بلامعاوضہ علاج کیلئے ایک اسپتال بنانا چاہتے تھے۔ اس اسپتال کیلئے منو بھائی نے اپنی زندگی میں جگہ خرید لی تھی لیکن اسپتال کی تعمیر کے لئے ان کے ادارے سندس فائونڈیشن کو آپ کے عطیات کی ضرورت ہے۔ منو بھائی جیسے گنہگار کے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کوئی سلیم، کوئی صادق، کوئی امین سامنے نہیں آئے گا، اسلئے پاکستان بھر کے گنہگاروں سے اپیل ہے کہ منو بھائی کے اسپتال کی تکمیل کے لئے اپنی زکوٰۃ مسلم کمرشل بینک شادمان برانچ لاہور میں سندس فائونڈیشن کے اکائونٹ نمبر 0974871811009130 برانچ کوڈ0776 یا الائیڈ بنک کے اکائونٹ نمبر 0010012282530015 برانچ کوڈ0227 میں عطیات جمع کرائیں۔