ہمارا بھی جواب نہیں، پوری دنیا میں کوئی"ہم سا ہو تو سامنے آئے"کرپٹ ہم خود ہیںکرپشن ختم کرنے کے لئے چین سے"ٹیوشن" لیتے ہیں۔ گند ہم خود ڈالتے ہیں۔ صفائی کا ٹھیکہ ترکی کو دیتے ہیں۔ ماحولیات کا ستیاناس خود کرتے ہیں، آلودگی کے خاتمہ کا علاج دوسروں سے کراتے ہیں۔ بلائوں کو دعوت خود دیتے ہیں، صدقہ بےگناہ بکروں کا دیتے ہیں۔ وہ اونٹ خود ہیں جس کی کوئی کل سیدھی نہیں، "سازش" اغیار کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ غربت کو جنم خود دیتے ہیں اور اسے خوشحالی میں بدلنے کے لئے دوسروں کے در پر دھکے کھاتے ہیں۔ قرضہ لینے کے نشے میں آپ مبتلا ہیں، بددعائیں اور گالیاں قرض خواہوں کو دیتے ہیں۔ مرنے کا شوق خود پالتے اور ظالم ہونے کا طعنہ شہر کے لوگوں کو دیتے ہیں(منیر نیازی سے معذرت کے ساتھ) گناہ خود کرتے ہیں، بخشش کی دعا"باباجی" سے کراتے ہیں۔ صرف وردیاں تبدیل کرکے کمیشن کھانے کے بعد یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ پولیس کا رویہ تبدیل نہیں ہوا۔ چلتی گاڑی سے گند باہر اچھال کر"صفائی نصف ایمان ہے" پر سر بھی دھنتے ہیں۔ محمد علی جناح کو قائد اعظم کہتے تھکتے نہیں، ووٹ چوروں کے پاس"بیچ" دیتے ہیں۔ پاک پانی کو پلید کرکے امید رکھتے ہیں کہ سبزیاں صاف پانی سے سیراب ہوں گی۔ اولادوں کو حرام کھلا کر بڑھاپے میں ان سے حلال رویوں کی آس لگاتے ہیں۔ خود کو تبدیل کئے بغیر تبدیلی کا انتظار کرتے ہیں۔ "ہم سا ہو تو سامنے آئے"بلکہ ہر آئندہ نسل گزشتہ نسل سے چار ہاتھ آگے کیونکہ "ٹیلنٹ" کی کوئی کمی نہیں بلکہ اتنی بہتات ہے کہ ہم نے ریلوے ٹریک پر مارکیٹیں"ایجاد" کرلیں اور ایسی "ایجادات " کی فہرست اتنی طویل ہے کہ یہ قلیل سا کالم اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ یہاں مجھے سلاطین دہلی میں سے ایک بری طرح یاد آرہا ہے۔ غالباً کوئی خلجی تھا یا بلبن، نام ٹھیک سے یاد نہیں لیکن نام میں کیا رکھا ہے۔ کام پر توجہ دیں، آج کی طرح صدیوں پہلے بھی کم تولنے کی وبا ءبہت عام تھی جس سے سلطان بہت بیزار تھا۔ بڑی منادیاں کرائی گئیں کہ کم تولنے والوں کو جرمانے ہوں گے، سزائیں ملیں گی لیکن چند روز بعد پھر وہی کم تلائی۔ تنگ آکر سلطان نے ایک بھیانک فیصلہ کیا اور اپنی ٹیمیں بازاروں میں پھیلا دیں۔ یہ شاہی سپاہی عام لوگوں کے حلیے میں دکانوں پر جاتے، سودا خریدتے، اشارے سے پارٹنر کو بلاتے، لوگوں کو متوجہ کرتے، خریدا ہوا سودا شاہی تکڑی اور اوزان کی مدد سے تولتے، سودا ظاہر ہے کم نکلتا تو جتنا کم نکلتا، دکاندار کے جسم سے سرعام اتنا ہی گوشت بحق سرکار کاٹ لیا جاتا۔ ظاہر ہے اب یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ مختلف لوگوں کا چند سیر گوشت کٹنے کے بعد پوری کمیونٹی میں ٹھنڈ پڑگئی۔ بظاہر یہ "انسانی حقوق" کی پامالی ہے لیکن پھر وہی بات کہ انسانی حقوق کے لئے انسان ہونا ضروری ہے اور کیا وہ انسان نہیں ہوتے جنہیں ایکسپلائٹ کیا جاتا ہے، لوٹا اور بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ درست کہ جہاں انسان ہوگا وہاں جرم بھی ہوگا اور گناہ بھی لیکن کوئی تناسب بھی ہوتا ہے اور جب کوئی معاشرہ مادر پدر آزاد ہو کر سارے سائونڈ بیرئیرز ہی توڑ دے تو پھر کچھ سوچنا ضروری ہوجاتا ہے۔ شیروں سے لے کر ہاتھیوں تک کی ایسی "تربیت" ہوجاتی ہے کہ مجال ہے جو حدود سے ذرا باہر نکلیں لیکن اس کے لئے اچھے ٹرینر کی ضرورت ہوتی ہے جو شروع شروع میں تو تشدد سے کام لیتا ہے لیکن پھرچابک کی آواز اور اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ انسان کو بھی حیوان ناطق کہتے ہیں، اس کی تربیت کیوں نہیں ہوسکتی؟کرائم ریٹ کے حوالہ سے دنیا میں اگر ڈسپلنڈ اور مہذب ترین جاپان نمایاں ہے تو "ہمارا" قطر نمبر ون اور یو اے ای تیسرے نمبر پر ہے تو پاکستان میں فری سٹائل کشتی کب تک؟ جعلی دوائیں بنانے والوں کے بھی انسانی حقوق ہیں تو سرآنکھوں پر، اسی طرح خوراک میں، یہاں تک کہ بچوں کی خوراک میں بھی اگر غلاظت اور خطرناک ملاوٹ عروج پر ہے لیکن نسلیں بیمار اور برباد کردینے والوں کے بھی"حقوق" ہیں تو ہم سب کو مبارک ہو۔ "پنجاب فوڈ اتھارٹی" عوام کی محسن ہے، میں روز اول سے اس کی کارکردگی کا مداح ہوں۔ ایک خاتون ڈائریکٹر تھی عائشہ ممتاز جسے لوگ آج تک نہیں بھولے، نورالامین مینگل نے اس کے لئے دن رات کام کیا۔ ایک مختصر سے بیڈ پیچ کے بعد موجودہ ڈی جی کیپٹن عثمان نے حق کپتانی ادا کیا لیکن آج میں یہ پڑھ سن کر ششدر رہ گیا کہ اک سیاسی جتھہ اس عوام دوست PFA کو بھی بےدست و پا کرنا چاہتا ہے، اس کے پر کاٹنا چاہتا ہے اور وجہ یہ کہ اس کا سربراہ سوائے میرٹ کے کسی کی بات نہیں سنتا، ایسا ہوا تو یہ اہل پنجاب بلکہ ان کے بچوں پر ظلم ہوگا۔ تفصیلات اکٹھی کررہا ہوں، چند روز میں پوری کہانی سامنے رکھ دوں گا۔ اس آدم خور جمہوریت میں دلی کا عوام دوست سلطان یاد آتا ہے۔