جیسا آغاز ویسا انجام جیسی ابتدا ویسی انتہا .نواز شریف کا سیاسی کیریئر جیسے شروع ہوا ویسے ہی ختم ہو گیا کہ اس میں غور کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ چند برس پہلے جب میں نے اس بات کی تکرار شروع کی کہ چند خاندان اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کہانی کس تیزی سے کلائمیکس کی طرف رواں دواں ہے۔ لوٹ مار سے متعلق حقائق دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا کرنے والوں کو سو فیصد یقین تھا کہ اس ملک کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ کبھی ٹھنڈے دل سے غور تو کریں جہاں ریلوے ٹریک پر مارکیٹیں بن جائیں وہاں حال کیا ہو گا۔ اربوں کھربوں کی وارداتیں تو ریزگاری کے تبادلے سے زیادہ اہمیت کی حامل نہ تھیں۔ سب لوگ سب کچھ جانتے تھے لیکن حالت کچھ ایسی ہوتی گئی..... "جاگنے والو! جاگو مگر خاموش رہو" اک عجیب سی بے حسی کا عالم طاری تھا، یوں محسوس ہوتا کہ ہر کوئی اسے "وے آف لائف" کے طور پر قبول کر چکا ہے۔ ایک بار میں نے لکھا کہ حالات دیکھ کر سعادت حسن منٹو مرحوم کا افسانہ "کھول دو" یاد آتا ہے لیکن پھر یہ معجزہ ہو گیا جسے اکثریت بلکہ بھاری ترین اکثریت "احتساب" اور طفیلیوں پر مشتمل اقلیت "انتقام" قرار دے رہی ہے۔ کرپشن فری سوسائٹی تو کسی خوب صورت خواب سے کم نہیں۔ پاکستان میں تو یہی بہت بڑی اچیومنٹہو گی کہ مقتدر لوگ کرپشن کرنے سے پہلے دوچار بار سوچ ہی لیا کریں ورنہ تو مدتوں پہلے یہ تکلف اور تردد بھی ختم ہو چکا تھا۔ آج جس طرح لوگ چھاتی پر ہاتھ مار کر اپنی دیانت و امانت کے اعلان کرتے ہیں تو اس کی وجہ سوچ کی وہ سطح ہے جہاں پہنچ کر انسان کرپشن کو کرپشن سمجھتا ہی نہیں ورنہ یہ کہنا ممکن ہی نہیں کہ "میں نے کبھی اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا"کتابوں میں درج، ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہاں 60، 60 اور 62، 62 سال کے پٹواری بھرتی کئے گئے۔ عباس خان نامی آئی جی کی رپورٹ موجود ہے کہ کرنے والوں نے جرائم پیشہ "WANTED" لوگوں کو پولیس میں بھرتی کیا، صحافت میں سہہ طرفہ نقب لگائی گئی کہ تین پلاٹ پیش خدمت ہیں دوسرا بیچ کر پہلے پر گھر بنا لو اور تیسرا بیچ کر اس کے لئے فرنیچر خرید لو..... اس طرح خرید و فروخت کے ایک نئے کلچر کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور رولز ریلیکس کرنے کی نئی رسم متعارف کرائی گئی۔ یہ اندھے انتقام کی نہیں، صنعت و تجارت سیاست کی آخری ہچکی ہے جس کے بعد سکوتِ مرگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ موت کی آخری ہچکی کو ذرا غور سے سنزندگی بھر کا خلاصہ اسی آواز میں ہےانہیں "ٹھگز آف پاکستان" قرار دینا بے خبری لاعلمی کی بدترین مثال اور ٹھگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ مقامی نہیں گوروں نے بھی ٹھگوں اور ٹھگی پر بہت کچھ لکھا ہے۔ بیشک ٹھگ بے رحم، سفاک، اپنے فن بلکہ "فنون" میں طاق لوگ تھے لیکن اوّل یہ کہ ان کے بھی کچھ اصول، قاعدے، ضابطے، معیار تھے اور دوسری انتہائی اہم بات یہ کہ ان کا حلقہ اور اثرات بہت ہی محدود تھے۔ یہ ملکوں اور نسلوں کے مستقبل کے سوداگر ہرگز نہیں تھے، نہ ووٹ لے کر آتے نہ ووٹ کو عزت دینے کے ڈھونگ رچاتے۔ نہ کبھی جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیتے نہ اس کا استحکام ان کا مسئلہ تھا۔ نہ لیئرنگ کی مہارت نہ منی لانڈرنگ کے ایکسپرٹ نہ انہوں نے کبھی بیرون ملک اثاثوں کا سوچا۔ سب چھوڑو، ان معصوموں کی ہی مان لیتے ہیں بشرطیکہ ان میں سے کوئی اس سادہ سے سوال کا جواب دیدے کہ دس سال میں 24ہزار ارب کے قرضے کیا ہوئے؟ تمہیں کبھی نقصان نہیں ہوا، لوگوں کو کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا تو آخر ہوا کیا کہ سب کچھ گروی پڑ گیا۔ کالج کے زمانے سے JAMES RESTON کا یہ جملہ دماغ میں پیوست ہے۔ "THE GOVERNMENT IS THE ONLY KNOWN VESSEL THAT LEAKS FROM THE TOP."سچی بات ہے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتیں دیکھ کر اس جملے کی صحیح سمجھ آئی کہ برتن اوپر سے لیک کیسے کرتے ہیں ورنہ میں تو یونہی ہانکتا رہتا ہوں کہ اس ملک کی معیشت کا پیندا کھایا گیا اور اس میں سمندر بھی ڈال دو تو یہ برتن خالی کا خالی رہے گا۔ میرا ذاتی ردعمل سوائے ندامت، شرمندگی اور پچھتاوے کے کچھ بھی نہیں۔ مجھے بھلے کبھی نہ بھایا ہو لیکن میں اس حقیقت سے کیسے انکار کر سکتا ہوں کہ وہ جو دوبار میرے ملک کے سب سے بڑے صوبے (بحوالہ آبادی) کا وزیر اعلیٰ اور میرے ملک اسلامی ...جمہوریہ ...پاکستان کا تین بار وزیراعظم منتخب ہوا، کرپٹ تھا اور میری جس سیاسی پارٹی نے مجھ سے "روٹی کپڑا مکان" کا وعدہ کیا، اس کے وارث جعلی اکائونٹس کے موجد و مالک نکلے۔ اور کچھ ہو نہ ہو اب ہر کرپٹ کرپشن کرنے سے پہلے ایک دو بار سوچے گا ضرور، قبضہ کرنے سے پہلے بھی تھوڑا بہت غور کرے گا کہ 50، 40، 30، 20، 10 سال بعد کوئی چھڑانے ہی نہ آ جائے۔ اک قیمتی مشورہ یہ کہ "فالو اپ" پر فوکس نہ رہا تو یہ ساری مشقت غارت، اکارت سمجھو بلکہ یقین رکھو کرپشن سے لے کر تجاوزات تک کا یہ شیطانی کلچر پوری قوت سے واپس آئے گا۔