بقول ان کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ اسے سیاست آتی تھی نہ اس کے ہاتھ میں وزارت ِ عظمیٰ کی لکیر تھی لیکن جھاڑو پھرگیا، صفایا ہو گیا، صفائی بھی شروع اورہاتھ کی صفائی کے سارے ایکسپرٹ ہکے بکے۔ بہت سے گوروگرگٹ سلوموشن میں رنگ بدل رہےہیں اورکچھ نے دھیمے سروں میں ’’راگ معافی تلافی‘‘ بھی چھیڑ رکھا ہے کیونکہ اس سے ان کی ’’جمہوریت‘‘ مضبوط ہوگی۔ واقعی انتقام زہر ہے اور سیاست میں تو سو فیصد زہر قاتل لیکن میرے قتل کی سزا معاف کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں کہ اگر ’’معافی‘‘ اچھی بات ہے تو ’’میرٹ‘‘اس سے کئی گنا بڑھ کراچھی بات ہے۔ سزا اور جزا تو خدا کا قانون ہے جبکہ ادھر تو کہانی درکہانی، جرم در جرم، کرپشن در کرپشن کی طلسم ہوشربا تہہ در تہہ کھل رہی ہے تو بھائی! کتنی معافیاں، کس کس کی معافیاں اور کس کس جرم کی معافیاں؟بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سبحان تیری قدرت۔ سنا بلکہ پڑھا ہے کہ فواد حسن فواد نے آشیانہ کرپشن اسکینڈل کا سارا فساد شہباز شریف کے کھاتے میں ڈال دیاہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ ’’نیب‘‘ نے شہباز اور فواد دونوں کو آمنے سامنے بٹھاکر سوالات پوچھنے کا فیصلہ کیا ہے تو بندہ پوچھے پاناما سے آشیانہ تک کس کس جرم کی معافی؟سچ پوچھو تو ان کے قانونی کام بھی غیرقانونی اور جائز بھی ناجائزہی تھے ورنہ اس مقروض ملک میں ایک وزیراعظم کے لئے سینکڑوں گاڑیوںاور سینکڑوں ملازمین کا کیا جواز ہے کہ ایسا تو متمول اور مہذب ترین ملکوں میں بھی ناممکن سمجھو۔ قانون کی بالادستی ہوگی۔ پینے کوپانی صاف ملےگا۔ ہیلتھ انشورنس تاجینوئن بلدیاتی نظامپی ایم، سی ایم، جی ایم ہائوس کے عشرت کدے فارغ اور خود وزیراعظم دو ملازم، دو گاڑیوں کے ساتھ3 بیڈ روم کے گھرمیں رہے گا کہ اسلامی جمہوریہ کو یہی زیب دیتا تھا اور دیتا ہے۔ ملک سرسبز وشاداب ہوگا، سیاحت فروغ پائےگی۔ FBR کو راہ راست پر لایا جائے گا۔ پولیس سیاسی مداخلت سے پاک۔ کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کو ریکوری کا 25 فیصد ملےگا۔ لوٹ کے مال کی واپسی کے لئے ٹاسک فورس، بیرونی سرمایہ کاری کے لئے رستے ہموار۔ سب بچے سکول جائیں گے۔ عدالتی نظام میں واضح بہتری لائیں گے۔ جنوبی پنجاب صوبہ تا فاٹا انضمام۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہنتھو خیرا پھر لین دین، مک مکا، سودے بازی میں مصروف کہ صدر ہمارا، اپوزیشن لیڈرتمہارا۔ گورننس اور انداز ِ گورننس Redefine ہورہےہیں، پرانے پاپی وہیں پھنسے ہوئےہیں۔ ابھی حال ہی میں لکھا اور خود بھی لطف اندوز ہوا کہ بگڑے چہروںکی کاسمیٹک سرجری تو ہوتی ہے، ڈی این اے کی سرجری ممکن نہیں، تودیکھتے ہیں ان کا DNA کیا کرتا ہے؟ یہ سب اپنی اجتماعی ناکامی کے بعد عمران کی کامیابی میں رخنے ڈالنے کی حماقت کوہی ’’حکمت عملی‘‘ بنائیں گے، توبہت بری طرح پچھتائیں گے کیونکہ عوام کو عمران اور اس کی نیت پر اعتبار ہے اورجونہی ان تک یہ پیغام گیا کہ یہ لوگ عمران اور عوام کی بہتری کے درمیان آنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ ان سے باقاعدہ متنفر ہوجائیں گے اور ان کے قصہ ٔ پارینہ بننے میں اگر کوئی کسررہ جائے گی، یہ اپنے کرتوتوں سے خود پوری کرلیں گے۔ قدرت انہیں خود ان کےاپنے ہاتھوں سے انجام تک پہنچائے گی۔ عمران نے کہا ’’گھبرانے والا نہیں، اب یہ ملک بچےگا یا یہ کرپٹ‘‘ یہ بھی جانتے ہیںکہ ہ گھبرانے والا نہیں اور جہاں تک تعلق ہے ’’بچنے‘‘ کاتو ان شاء اللہ ملک ہی بچے گا بھی، بنے گا بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو اک عرصہ سے مجھے بچتے دکھائی نہیں دیتے۔ سمتوں کاتعین ہوچکا، رخت ِ سفر بھی تیار، سفر شروع ہوتے ہی رفتار کا اندازہ لگانامشکل نہ ہوگا لیکن اس عمرانی ایجنڈے کےبعد میں سوچ رہا ہوں کہ جب عمران کلی یاجزوی طور پر اپنے اہداف حاصل کرلے گا تو یہ سب کہاں ہوں گےاور کیاکریں گے؟ن لیگ نمک کی وہ کان ہے جوپانی میں غرق ہوچکی کیونکہ ان کا مائنڈ سیٹ اب بھی وہی ہے۔ کہتے ہیں ’’عمران کی باتیں بچگانہ، عمل کرکے دکھائیں‘‘ یہ وہی ہیں جن کے نزدیک اسے سیاست نہیں آتی تھی اورہاتھ میں وزارت ِعظمیٰ کی لکیر نہ تھی جبکہ وہ بضد تھاکہ ’’انہیں رُلائے گا‘‘ اس نے انہیں رُلایا بھی اور رول کے بھی رکھ دیا لیکن انہیں اب بھی سمجھ نہیں آرہی تو میں خوش نہیں، پریشان ہوں اور وہ اس لئے کہ میں نے برسوں ’’تیسری قوت‘‘ کے خواب دیکھے اور لکھے تاکہ کوئی تو ہو جوباقی دو قوتوں کو مانیٹرکرسکے لیکن ان کی حرکتیں دیکھ کر تو مجھے کہانی ’’اکلوتی قوت‘‘ کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے جوکسی طرح بھی مناسب نہیں کیونکہ ’’اجارہ داری‘‘ نہ تجارت میں وارے کاسودا ہے نہ سیاست میں۔ اس لئے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو چاہئے مخصوص خول سے باہر نکل کر اپنی سوچ، رویوںاور اعمال پر نظرثانی کی کوشش کریں ورنہ ’’اکلوتی قوت‘‘ قوی تر اوریہ کمزور تر ہوتے جائیں گے جو ملک کے لئے صحت مند نہیں۔