یہ سوال نما عنوان یاعنوان نما سوال انسان کیلئے بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ منصفانہ معاشرہ کیوں ضروری ہے جس کے حصول کی خاطر لوگ زندگیاں وقف کردیتے ہیں اور ضرورت ہو تو انہیں دائو پر بھی لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ پہلی بات یہ کہ ’’منصفانہ‘‘ کا مطلب ’’مساوات‘‘ ہرگز نہیں کیونکہ شکلوں سےعقلوں تک میں فرق ہوتا ہے۔ خوب صورت پرکشش اور بدصورت بے کشش ہوگا تو مساوات کیسی؟ ایسے ہی کمزور اور طاقت ور ایک سا کیسے ہو سکتا ہے؟ بے ہنر کا کسی فنکار کے ہم پلہ ہونا ممکن نہیں اور کسی سائیں لوک کو سائنسدان کے ساتھ بریکٹ کرنا خود ناانصافی کہلائے گا۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ’’منصفانہ‘‘ کو ’’مساوات‘‘ کے ساتھ کنفیوژ نہ کیا جائے۔ منصفانہ معاشرہ کامطلب ہے کہ عزت، عزت نفس، اناج، علاج علم کے حصول تک سب کی رسائی ہو اور یہ کثیر الجہت رسائی معاشرہ کے بالائی طبقات کو پیدائشی طور پر حاصل ہوتی ہےاور یہی وجہ ہے کہ وہ باقیوں یعنی محروموں کیلئے ان ضروریات کے حصول کو یقینی بنانا ضروری نہیں سمجھتے، اس کیلئے کوشش نہیں کرتے۔ جو طبقات خوشحال، بااثر اور مضبوط ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر ممکن سہولت بلکہ عیاشی انہیں میسر ہو۔ رہن سہن، کھانا پینا اعلیٰ ہو، عمدہ سواریاں میسر ہوں، بچوں کیلئے اچھے سے اچھے تعلیمی ادارے دستیاب ہوں، چھٹیاں بیرون ملک گزار سکیں، اعلیٰ سے اعلیٰ معالج ان کی دسترس میں ہو، ادارے ان کا استحصال نہ کرسکیں بلکہ قدم قدم پر ان کی معاونت کیلئے موجود ہوں تو انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ معاشرہ کے محروم اور مظلوم، پسماندہ افتادگان خاک کیلئے کسی بھی قسم کی عملی یا فکری جدوجہد کر کے اپنی جان جوکھوں میں ڈالیں لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہیں سے تباہی کا آغاز ہورہا ہے جس سے بچنے کیلئے کمزوروںکیلئے کچھ کرنا بیحد ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ آج کا طاقتور کل کمزور ہوسکتا ہے، آج کا بااثر کل بالکل بے اثر ہوسکتا ہے، آج کا متمول کل غریب ہوسکتا ہے کیونکہ یہی قانون قدرت ہے، رب العالمین انسانوں کیا قوموں کے درمیان بھی دنوں کو پھیرتا رہتا ہے اور زندگی میکرولیول پر کسی بے رحم رولر کوسٹر کی مانند ہے جس میں اوپر نیچے، اونچ نیچ کا کھیل چلتا رہتا ہے اور بنی نوع انسان کی پوری تاریخ اس کی گواہی دیتی ہے۔ خود اپنی تاریخ ہی دیکھ لیں۔ کہاں گئے بنو امیہ، کیا ہوا بنو عباس کو، کدھر گئے، سلطنت عثمانیہ، مغلیہ یا صفویہ کے شہزادے شہزادیاں؟ ماضی کے کمی کمین آج کے چوہدری، ماضی کے گمنام آج کے نامور، آج کے کمزور بے اثر کل کے طاقتور اور بااثر تو بزرگ یونہی نہیں کہا کرتے تھے کہ سدا بادشاہی صرف اللہ کی ہے اور سدا کا بادشاہ، بادشاہوں کا بادشاہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی یہ مخلوق جو انسان کہلاتی ہے، اپنے خالق کے احکامات پر عمل کرے جو خود اس مخلوق کیلئے بہترین راستہ ہے اور منزل بھی۔ ذرا تصور کریں آج آپ ہر لحاظ سے طاقتور ہیں اور اس بات سے بالاتر کہ آپ کے اردگرد کیسی کیسی غیر منصفی ہورہی ہے لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل آپ کے پوتے، پڑپوتے یا ان کے پوتے بھی اتنے ہی طاقتور ور ہوں جتنے آج آپ خود ہیں۔ کل جب وہ معاشی، معاشرتی ضعف کی زد میں آئیں گے تو منصفانہ معاشرہ کے قیام کی آپ کی آج کی گئی جدوجہد یا کوشش ان کے کام آئے گی اور منصفانہ معاشرہ انہیں شرف انسانیت سے کبھی محروم نہیں ہونے دے گا۔ دوسرا رویہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘ یعنی تیسری، پانچویں، ساتویں پشت یا نسل کا کون سوچے تو یہ ایک خود غرضانہ، بے رحمانہ، سفاکانہ سوچ ہوگی کہ اصولاً اپنی ہی نہیں دوسروں کی آئندہ نسلوں پردھیان دینا بھی آپ کی ذمہ داری ہے اور یہ کوئی ’’اولیائی‘‘ نہیں، کمال نہیں بلکہ سیدھی سادی کامن سینس کی بات ہے کہ اگر آپ کا معاشرہ بدترین ماحولیاتی آلودگی کی لپیٹ میں آجائے تو یقین رکھیں آپ اپنے سنٹرل ائیرکنڈیشنڈ گھر یا فارم ہائوس میں بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے، لا اینڈ آرڈر تباہ حال ہوگا تو آپ اپنے مسلح گارڈز سمیت بھی محفوظ نہیں۔ مختصراً یہ کہ عدالتی انصاف سے لیکر اقتصادی انصاف تک ایک منصفانہ معاشرہ کا قیام دراصل خود اپنا اور اپنی نسلوں کا استحکام ہے اور شاید جہاد اکبر اور سب سے بڑی عبادت بھی خصوصاً ان کیلئے جو مسلمان کہلاتے ہیں کہ ہمارے اسلاف نے تو صدیوں پہلے بنی نوع انسان کو پہلی ویلفیئرسٹیٹ کا تحفہ دیا تھا جس کیلئے میں منصفانہ معاشرہ کی اصطلاح استعمال کررہا ہوں جو آج شاید سکینڈے نیوین ملکوں کے سوا پورے مغرب میں بھی موجود نہیں۔ "He who provides for this life, But takes no care for future, is wise for a moment, But a fool forever. "Victor Hugo اسی فلسفہ کو کچھ یوں بیان کرتا ہے۔ "There is nothing like a dream to creat the future. "پاکستان مستقبل کی جانب اس مشکل سفر کا آغاز کر چکا، خدا ’’مسافروں‘‘ کو ہمت، صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ آمین