1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسن نثار/
  4. ولید اقبال، ملیحہ لودھی اور کلدیپ صاحب

ولید اقبال، ملیحہ لودھی اور کلدیپ صاحب

اللہ کا شکر ہے ذاتی تجربہ تو کوئی نہیں لیکن سنا بہت ہے کہ قرض کا عذاب قبر کے عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ اس عربی محاورہ کا تو ترجمہ ہی بہت ڈرائونا ہے کہ ’’مقروض ذبح کیا ہوا ہوتا ہے‘‘۔ قرض صرف روپیہ پیسہ کا ہی نہیں ہوتا اس کی اور بھی بہت سی قسمیں ہیں اور آج مجھے اس قسم کے تین قرض اتارنے ہیں۔ پہلا قرض ہے شاعر مشرق علامہ اقبال بلکہ ان کے پوتے ولید اقبال کا جو گزشتہ سات سال سے PTI میں ہے اور اس سے پہلے کبھی کسی سیاسی پارٹی کا حصہ نہیں رہا حالانکہ اپروچ کیا جاتا رہا۔ PTI لاہور کا صدر بھی رہا اور بوقت ضرورت پارٹی کے لئے آنسو گیس، لاٹھیاں، لاک اپ بھی جھیلے اور اپنے قائد عمران خان کا وکیل بھی تھا یا ہے۔ یہ گھرانہ مجھے پسند نہیں کرتا کیونکہ مجھے علامہ صاحب سے تھوڑا اختلاف بھی ہے جس کا میں نے دلیل کے ساتھ کئی بار اظہار بھی کیا۔ بہت سے بدنصیب نہیں جانتے کہ اختلاف کا مطلب احترام میں کمی یا عدم احترام ہرگز نہیں ہوتا لیکن اس موضوع پر پھر سہی۔ فی الحال تو فقط اتنا ہی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے لاہور کے کسی ضمنی الیکشن کے لئے ولید اقبال اور ہمایوں اختر میں سے کسی ایک کو ٹکٹ دینا ہے اور یہ ٹکٹ سے کہیں زیادہ اک پیغام ہو گا ان عوام کے لئے جو PTI سے بے پناہ امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ عام انتخابات سے پہلے تو ’’الیکٹ ایبلز ‘‘ کا تُک بنتا تھا لیکن اب تو یہ مِتھ بھی کریک اور کریش کر چکی تو ولید اقبال کو نظر انداز کرنے سے نظر لگنے کا خطرہ ہے۔ ولید اقبال کو ٹکٹ دینے کی علامتی اہمیت کو نہ سمجھنا نامناسب ہو گا خصوصاً ان حالات میں جب PTI کی حکومت بھی بن چکی۔ اس سے زیادہ لکھنا دخل در معقولات ہو گا۔ میں تو اتنا بھی نہ لکھتا اگر علامہ اقبال کا مقروض نہ ہوتا۔ اب چلتے ہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی طرف جن سے زندگی میں ڈیڑھ ملاقاتیں ہیں۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی پر آج کل سوشل میڈیا کچھ کچھ مہربان ہے جبکہ کسی ایک ’’الزام‘‘ میں بھی جان نہیں۔ کہا گیا وہ ایک لگژری اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں۔ اول تو لگژری کی اپنی اپنی Defination ہے، دوم یہ کہ ملیحہ اسی سرکاری رہائش میں قیام پذیر ہے جہاں تمام متعلقہ لوگ 1965 سے رہ رہے ہیں۔ دوسرا الزام یہ کہ ان کے پاس BMW 8 Series کار ہے۔ اول یہ کہ ایسی کاروں کی وہاں کوئی اوقات نہیں، یہ صرف ہم جیسے ملکوں میں ہی بے تحاشہ ڈیوٹی کے باعث بہت مہنگی سمجھی جاتی ہیں اور کمال یہ کہ یہ بھی ڈاکٹر ملیحہ کے زیر استعمال نہیں۔ ملیحہ لودھی ’’ٹاپ ٹو ٹو‘‘ ایک اپ رائٹ ٹیکنو کریٹ ہیں جنہوں نے مختلف ادوار میں اپنے ملک کی بہت بہتر طور پر خدمت کی، البتہ آصف زرداری صاحب کو سرو کرنے سے معذرت ضرور کی تھی۔ ملیحہ کی موجودگی و سربراہی میں ہم نے گزشتہ سال Human Rights Councilکا الیکشن جیتا، UNمیں عید کی تقریبات منعقد کرائیں جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا، کشمیر پر پاکستانی موقف ہمیشہ موثر انداز میں پیش کیا، دہشت گردی کے ایشو پر انڈین لابی کے پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کا ہمیشہ مدلل اور بھرپور جواب دیا۔ فلسطین اور القدس کے معاملات پر پاکستانی قوم کی امنگوں کی عمدہ ترجمانی کی۔ تمام ملکوں کے نمائندوں سے مثبت مثالی روابط رکھے۔ آخر پر برصغیر کے انتہائی سینئر معتبر صحافی سفارت کار، دانشور بزرگ سور گباشی کلدیپ نائر کے بارے میں جو فرزندہ سیالکوٹ تھے، گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھے اور زندگی بھر پاکستان اور پاکستانیو ں سے محبت میں مبتلا رہے۔ ہمارے دوست کالم نگار اسد مفتی نے نائر آنجہانی کی کتاب ’’ایک زندگی کافی نہیں‘‘ کے دیباچہ میں ان کے بارے یہ کمال جملہ لکھا۔ ’’سیکولرازم کا اردو ترجمہ کلدیپ نائر ہے‘‘امن کے اس عظیم سفیر بارے کچھ لکھنا میری اوقات سے باہر ہے اس لئے خود ان کی اپنی تحریر سے چند اقتباسات کے بعد اجازت چاہوں گا۔ پڑھیئے۔ ’’میں نے سیاستدانوں، بیورو کریٹس، صنعت کاروں، میڈیا کے سربر آواردہ لوگوں اور صحافیوں میں عظیم، جابر اور غیر اہم لوگ دیکھے۔ مجھے زیادہ تر لوگوں نے مایوس کیا ہے اور میرا مشاہدہ یہ رہا ہے کہ بڑے بڑے عہدوں پر براجمان زیادہ تر لوگ ان کے اہل نہیں تھے۔ وہ معتبر لوگ تھے لیکن ان میں قابلیت کی کمی تھی‘‘(قارئین! کیا یہی پاکستان کا بھی المیہ نہیں؟)اک اور جگہ لکھتے ہیں۔ ’’اس کتاب میں قارئین کو پاک بھارت تعلقات کے حوالہ سے کافی بحث پڑھنے کو ملے گی۔ اس میں بہتری لانا میرے جنون کے ساتھ ساتھ میری عبادت بھی رہی ہے۔ یہ صرف میرے ماضی کی یادوں تک محدود نہیں بلکہ میرا عزم بھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن میں دوستانہ ریاستوں پر مشتمل خطہ دیکھوں گا جو اپنے مشترکہ مفاد کے لئے مل جل کر کام کریں گی‘‘۔ اس سے زیادہ کیا لکھوں کہ اس خطہ کو ایسے ہی ذہنوں اور ظرفوں کی اشد ضرورت ہے۔ الوداع کلدیپ نائر صاحب الوداع۔