بوریت کی انتہا ہو چکی۔ عجیب بدمزہ سا پھیکا پھیکا منظر ہے۔ ن لیگی حکومت جانے کے بعد ان کی قدر و قیمت کا احساس ہو رہا ہے۔ ظالم جاتے جاتے ساری رونقیں بھی لے گئے۔ خدا جانے اس جمہوری تھیٹر کو کس کی نظر لگ گئی کہ اب نہ تخت پوشیاں نہ جلسوں میں وہ تاج پوشیاں، صرف پیشیاں ہی پیشیاں رہ گئیں اور وہ بھی نعروں، جپھیوں، پپیوں اور پھول کی پتیوں کے بغیر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہائے کیسے زمانے آئے کہ جلسوں جلوسوں پر علامتی جنازوں کا گمان گزرتا ہے۔ نہ وہ ٹیڑھی میڑھی انگلیاں نہ وہ وکٹری کے جعلی نشان نہ وہ ’’اک واری فیر شیر‘‘ اور "I Love You Too"نہ اقبال کے مصرعوں کی ٹانگیں ٹوٹ رہی ہیں نہ غالب کے شعروں کے ٹخنے چٹخ رہے ہیں اور حبیب جالب بھی مکمل طور پر محفوظ۔ جہاں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی وہاں قبرستان کا سا سکوت بلکہ سناٹا۔ جاتی امروں، ماڈل ٹائونوں کے گھروں کو جانے والی وہ سڑکیں تو بیوہ ہی ہو گئیں کہ بیریئرز ہی تو ان کا سہاگ تھے یا وہ لوگ جو راگ درباری سناتے ان پر سے گزرا کرتے تھے۔ منڈی میں مندی ہی نہیں چل رہی بلکہ بھٹہ ہی بیٹھ گیا۔ کہاں وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھیں۔ کہاں گئے میرے وہ طلال، نہال، دانیال، خلال اور زہرہ جمال جن کا خیال تھا کہ جاہ و جلال کو زوال ہی ممکن نہیں کیونکہ آقائوں کی جڑیں بہت مضبوط اور پاتال تک گہری ہیں لیکن اب دیکھو ٹی وی سکرینیں کیسے بھاں بھاں کر رہی ہیں کہ نہ کوئی لارج نہ میڈیم نہ سمال، سب چنڈال چوکڑیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ میں تو یہ سوچ سوچ کر ہلکان پریشان ہوں کہ جب یہ اخباروں میں ’’وزیر اعظم‘‘ عمران خان پڑھتے یا ٹی وی پر سنتے ہوں گے تو ان معصوموں کے نازک دلوں پر کیا گزرتی ہو گی یا شاید یہ لوگ اب کسی اور کی گاڑی کے آگے دھمال ڈالنے کی پریکٹس کر رہے ہوں گے؟کہتے تھے جہاں ’’یوٹرن‘‘ ہو وہاں عمران کی تصویر کافی ہے۔ عمران نے تو ’’یوٹرن لے لیا، اب اپنی سنائو، اپنے ان داتائوں اور قصۂ پارینہ آقائوں کی بتائو کہ وہ کون کون سے ’’رائونڈ ابائوٹ‘‘ کے گرد پھیرے لگا رہے ہیں، چکر کاٹ رہے ہیں کہ جہاں سے چلتے ہیں وہیں پہنچ جاتے ہیں۔ لے آئی پھر کہاں پر قسمت تمہیں کہاں سےیہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ’’تم‘‘ جہاں سے99 میں قدرت نے بہت سنگین وارننگ دی تھی لیکن یہ بھلے مانس ’’99‘‘ کے چکر سے نکلے ہی نہیں کہ یہ چکر ہے ہی بہت نحس کہ جو ایک بار اس میں پھنس گیا، کبھی نکلتے نہیں دیکھا۔ سچ پوچھیں تو یہ سب وہ نشانے ہیں جو خود اڑ کر تیر تک پہنچے۔ سیانے ایک آدھ تیر سے بھی بچتے ہیں، یہ وہ نمانے ہیں جو پورے ترکش پر پوری قوت کے ساتھ تشریف فرما ہو کر ریلیکس کرتے ہیں۔ ہائے کیا دن تھے جب جاتی امرا کے جنگل (شیر کی رہائش گاہ) کے درختوں کی کسی ٹہنی پر میاں مٹھو چوری کھاتے اور کسی ٹہنی پر بلبل ہزار داستان چہچہاتی۔ اب ہر ٹہنی پر الو اونگھ رہے ہیں یا چمگادڑیں الٹی لٹک کر یوگا کر رہی ہیں۔ سب ڈیزائنرز سوٹ، مگرمچھ کی کھال کے بوٹ، ’’شیر‘‘ وانیاں، واسکٹیں، ساڑھیاں، غرارے شرارے ہینگروں پر ہی لٹکے رہ جاتے ہیں۔ ’’پاناما‘‘ سے پہلے انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ تقریباً 22 سالہ طویل اقتدار اور اجالے کے بعد آگے اڈیالے ہوں گے، غرور کا نتیجہ مفرور بیٹے، سرکار "WANTED" ڈار بن جائے گا۔ بائیس سالہ اقتدار کسی کو بھی بائولا کر سکتا ہے۔ 81 تا 85 صوبائی وزیر خزانہ و کھیل، 85 تا 90 وزیر اعلیٰ پنجاب، 90 تا 93 وزیر اعظم، پھر 97 تا 99 وزیر اعظم اور 2013 تا 2017 پھر وزیر اعظم۔ ۔ ۔ ۔ ملک تھا یا ملوکیت؟ جمہوریت تھی یا راجواڑہ؟ برادر خورد بلکہ خردبرد کی بھی سن لیں کہ 4 بار وزیر اعلیٰ پنجاب یعنی ڈائریکٹ اقتدار تقریباً 22 سال۔ کھیل شروع ہوا 81 میں جو آج تک جاری کہ اپوزیشن بھی اقتدار ہی کا دوسرا چہرہ یعنی 35 سال سے بھی اوپر اور نتیجہ بلکہ نتائج؟ میرٹ کی موت، کرپشن کلچر، ادارے تباہ، معیشت برباد، اخلاقیات کے جنازے، اقربا پروری بلکہ چمچہ نوازی، اسراف بلکہ عیاشانہ اسلوب حکمرانی، شوقیہ دورے، بیرون ملک ذاتی جائیدادوں اور دولت کے کوہ گراں، خارجہ امور کی آڑ میں ذاتی تعلقات، ہر حلیف کی پشت میں خنجر زنی کی مسلسل پریکٹس، ہر محکمہ میں طفیلیوں کی نقب زنی، تاریخ ساز قرضے اور اپنے ’’لازوال‘‘ و ’’بے مثال‘‘ ہونے کا یقین لیکن افسوس یہ کہ’’سامان سو برس کا تھا پل کی خبر نہ تھی‘‘آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا لیکن میں اداس ہوں اور ملک کے سیاسی منظر پہ چھائی اداسی مجھے پریشان کر رہی ہے لیکن اس اداسی اور پریشانی میں PTIکے لئے ایک پیغام ہے کہ ___ کینڈے اور اوقات میں رہو، بدہضمی سے بچو ورنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تو ان کے نام و نشان بھی باقی نہ رہے جو کہا کرتے تھے___’’ہمارے سروں پر آسمان بھی آ گرے تو ہم اسے اپنے نیزوں پر اٹھا لیں گے‘‘