1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسن نثار/
  4. بات سے بات

بات سے بات

کوئی خبر اتنی اہم نہیں کہ سارا کالم اسے دان کردیا جائے اس لئے آج چھوٹی چھوٹی خبروں پر، چھوٹے چھوٹے تبصروں تک محدود رہنا ہی بہتر ہوگا۔ اس سے اچھی خبر کیا ہوسکتی ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں لیکن ایک پیج پر ہونے سے بھی کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ایک پیج پر رہا بھی جائے اور ایک پیج پر رہنے کے تقاضے کیا ہیں؟ یہ بات افراد سے بڑھ کر اداروں کو خود معلوم ہے۔ جن قارئین کی یادداشت میری طرح کمزور نہیں انہیں میرے وہ جلے کٹے کالم اچھی طرح یاد ہوں گے جن میں میں نے رجوعہ چنیوٹ میں ن لیگی واردات کو ایکسپوز کرتے ہوئے اس تھرڈ کلاس ڈرامہ کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔ اس ڈرامے میں تب کے وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا تھارجوعہ سے ’’نکلنے‘‘ والا لوہا، تانبا، سونا شریف برادران کی نیت کا کمال ہے۔ تب میں نے لکھا تھا کہ دنیا ٹیکنالوجی کے زور پر زمین سے قدرتی ذخائر برآمدکرتی ہے، یہ واحد خاندان ہے جو دنیا میں پہلی بار’’نیت ٹیکنالوجی‘‘ متعارف کرارہا ہے۔ جیالوجی میرا تو مضمون یا موضوع کبھی تھا نہ ہے لیکن میرے دوستوں میں کچھ ٹاپ کے ماہرین اراضیات بھی شامل ہیں۔ ہمارے زمانے میں ڈاکٹر شمس جیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے۔ ان کا بیٹا احمد جاوید المعروف جاوید گتہ بھی میرے قریبی دوستوں میں شامل ہے۔ مختصراً یہ کہ میں نے فوری طور پر ماہرین ارضیات دوستوں کی میٹنگ بلائی اور درخواست کی کہ مجھے رجوعہ چنیوٹ کے معدنی ذخائر بارے بریف کریں تو انکشاف ہوا کہ یہ سب بیہودہ، بوگس حکومتی ٹوپی ڈرامہ ہے، جس پر کروڑوں روپیہ پبلسٹی کے لئے برباد کردیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے جو ڈرامہ رچایا اس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ وزیر اعظم بھی اپنے اپنے لائو لشکر کے ساتھ موجود تھے۔ ٹیکنیکل تفصیلات تو اب مجھے یاد نہیں کیونکہ تب میں نے باقاعدہ نوٹس لے کر کالم لکھے تھے جن کا خلاصہ یہ کہ ساری ایکسر سائز بیکار ہے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ’’نیب‘‘ نے سابق وزیر اعلیٰ، سلمان صدیق اور احمد فاروق وغیرہ کو طلب کرلیا ہے اور یہ طلبی رجوعہ چنیوٹ میں خام لوہے کی تلاش کے منصوبے کی تحقیقات کے سلسلہ میں ہے۔ خدا کرے یہ تحقیقات جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچیں اور عوام جان سکیں کہ حکمران کتنی بے رحمی سے زندہ جانداروں کی کھالیں کھینچنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دو خبروں کو ملا کر پڑھنے سے مزہ دوبالا ہوگا۔ پہلی یہ کہ نواز شریف اور مریم صفدر کی سزائوں کے خلاف درخواستیں خارج کردی گئی ہیں اور دوسری یہ کہ وزیر اعظم ہائوس کی 33 لگژری گاڑیاں نیلام کرنے کے لئے اشتہار جاری کردیا گیا ہے۔ غور کریں تو یہ گاڑیوں کی نیلامی کا نہیں ایک خاص مائنڈ سیٹ اور عوام دشمن رویے کی نیلامی کا اشتہار ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ نیلام گھر دوبارہ کبھی آباد نہ ہوسکے۔ جہاں لوگ بنیادی ضروریات زندگی کے لئے سسکتے اور ترستے ہوں وہاں ان کی جیبیں کاٹ کر بلٹ پروف مرسڈیزیں اور بی ایم ڈبلیوز خریدنے کے لئے کتنی سگندلی درکار ہے؟ اسے جانچنے سمجھنے اور تولنے کے لئے شاید کوئی پیمانہ ایجاد نہیں ہوا۔ ایک اور خبر کے مطابق وزیر اعظم کی یہ دونوں باتیں غور طلب ہیں۔ عمران خان نے میڈیا سے تین ماہ مانگتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے بعد جتنی چاہیں تنقید کریں۔ دوسری بہت ہی ضروری بات یہ کہ’’کابینہ کا کوئی رکن مستقل نہیں‘‘۔ جہاں تک تنقید کے لئے تین ماہ کے انتظار کی بات ہے تو میں کچھ جلدی کرگیا۔ پچھلے دنوں میں نے دو نجی ٹی وی چینلز پر یہ کہا کہ میں پورے صبر و ضبط و تحمل کے ساتھ 4 تا 6 مہینے موجودہ حکومت کی پرفارمنس کا انتظار کروں گا جس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے گی۔ پرفارمنس ٹھیک ہوئی تو ٹھوک کر ایسا دفاع کریں گے کہ بدترین حریف بھی تعریف کرے گا اور اگر خدانخواستہ اس کے الٹ ہوا تو علامہ کے احکامات پر عملدرآمد کریں گے یعنی’’الٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا‘‘۔ امید ہے اس ناامیدی کی نوبت نہیں آئے گی کیونکہ عمران کہنے سے بڑھ کر کرنے والا آدمی ہے بصورت دیگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھیں گے۔ جہاں تک تعلق ہے اس وعدہ کا کہ’’کابینہ کا کوئی رکن مستقل نہیں‘‘تو اس وقت اس بات کی بیحد ضرورت تھی کیونکہ چند’’نو اقتدارئیے‘‘ اپنی اوقات سے باہر نکل کر دولتیاں جھاڑ رہے ہیں اور اس سے پہلے کہ پنجابی محاورے کے مطابق ٹوٹے ہوئے چھتروں کی طرح بڑھتے جائیں، یہ وارننگ بہت ضروری تھی۔ یہ وائرس ابھی کنٹرول کرلیا تو کرلیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ورنہ پورس کے یہ ہاتھی اپنی صفیں ہی الٹ دیں گےاور اتنا نقصان پہنچائیں گے جو ن لیگ پیپلز پارٹی وغیرہ مل کر بھی نہیں پہنچا سکتے۔