"دھرنے ختم کرنے کے لئے معاہدہ عارضی حل، حکومت، سڑکیں بلاک ہنگامہ کرنے پر افضل قادری، خادم رضوی سمیت سینکڑوں افراد کے خلاف مقدمات۔ " "ہائی ویز اور موٹرویز پر کتنی مالیت کی سرکاری املاک کا نقصان ہوا، اس پر بھی کارروائی ہوگی۔ " "کریک ڈائون شروع، مختلف شہروں میں گرفتاریاں۔ " حکومت کس کو بےوقوف بنارہی ہے؟"ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔ " جب ملک عملاً "انارکی" کے رحم و کرم پر تھا، یہ کہاں سورہے تھے کہ آنے والے اچانک نہیں، اعلان کرکے آئے اور یہ سب کچھ اعلان سے پہلے ہی ہر کوئی جانتا تھا کہ کون کیا کرے گا۔ اسے تو"سکھا شاہی" بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ اصطلاح مہاراجہ رنجیت سنگھ عہد کے لئے استعمال نہیں ہوتی کہ وہ ان کے برعکس دلیر بھی تھا، دانشمند اور بہترین منتظم بھی کہ اس کے ہوتے ہوئے انگریز کو آنکھ اٹھا کر بھی ادھر دیکھنے کی جرأت نہ ہوئی لیکن یہ لوگ؟ جو کچھ ہوا، مجھے اس سے کہیں زیادہ ملال بلکہ غصہ ان کے ردعمل پر ہے۔ کیا یہ واقعی نہیں جانتے کہ لڑائی کے بعد والے مکے اور طمانچے اپنے روغنی گالوں پر مارنے چاہئیں۔ کیا انہوں نے اسکول میں"Nip the evil in the bud" والا محاورہ نہیں سنا جو زخموں پر نمک چھڑکنے اور گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے آگئے اور وہ بھی عمران خان کے ردعمل پر جس پہ بے ساختہ یہ شعر یاد آتا ہے؎
میرا دکھ یہ ہے کہ میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
بچے اسکول، مریض ہسپتال، دیہاڑی دار مزدوری کے لئے نہ جاسکے۔ لوگوں کی قسطوں پر خریدی سواریاں خاک ہوگئیں اور انہیں صرف"سرکاری املاک" یاد ہیں۔ حکومتی رٹ کو جس آزادی کے ساتھ سنگسار کیا گیا، اس سے سمجھ آئی کہ یہ رٹ صرف عوام کے لئے ہے۔ "خارجے" توملک سے باہر لیکن یہ"داخلے" کیا کررہے تھے جن کی آنکھ ہی واردات کے بعد کھلی اور پھر"بعدازمرگ واویلا" کے لئے منہ کھل گئے۔ بہکے بھٹکے ہوئے برخود غلط، کمٹڈ لوگ تو آٹے میں نمک برابر بھی نہ ہوں گے، باقی تو لفنگے تلنگے کیلے لوٹنے والے تھے جنہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔ برامنتظم وہ ہوتا ہے جس کے سر پر آ پڑے تو ہاتھ پائوں پھول جائیں۔ اوسط درجہ کا منتظم وہ ہوتا ہے جس کے سر پر آپڑے تو وہ سر ٹھنڈا، اعصاب قابو میں رکھ کہ صورتحال سنبھالنے کی کوشش کرے۔ اور بہترین منتظم وہ ہوتا ہے جو قبل از وقت صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگا کر پیش بندی یقینی بنائے۔ اب کوئی مجھے بتائے کہ ان"سیاسی پوپ سٹارز" کا تعلق کس کیٹگری کے ساتھ ہے؟یہ ملک مدتوں سے"گا....گے....گی" پر چل رہا ہے اور شاید آئندہ بھی یونہی چلے گا۔ راگ راگنیاں وہی رہیں گی، صرف قوال پارٹیاں تبدیل ہوتی رہیں گی۔ ہمارا حال ہی عجیب ہے کہ ہم بدعنوانی کے خاتمہ کا نسخہ بھی چین سے مانگ رہے ہیں، اقتصادی بحالی کا فارمولا بھی انہی سے درکار ہے، برصغیر کی "فوڈ باسکٹ" کے باسی زراعت میں بہتری کے لئے بھی ان کے محتاج ہیں کہ ہم تو وہ ہیں جو گند ڈالنے کے بعد اس گند کی صفائی کے ٹھیکے بھی غیر ملکیوں کو دیتے ہیں تو بھائی! برا نہ منانا میرے پاس ایک ملین ڈالر مشورہ ہے جو مفت پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں عوامی جمہوریہ چین سے اتنا کچھ مانگ رہے ہو.....ان سے ایک سربراہ اور چند وزیروں پر مشتمل کابینہ بھی کیوں نہیں مانگ لیتے؟ اتنے برس گوروں کی چاکری کی اور بلاشبہ وہ بہت کچھ پایا جو ہم اپنے طور پر مزید دو سو سال حاصل نہ کرسکتے تو گوروں کے بعد اب پیلوں کو بھی رضاکارانہ طور پر آزمانے میں کیا مضائقہ کہ یہ تو پڑوسی بھی ہیں اور برادر بھی۔ تعلقات ہمارے ہمالیہ سے اونچے، سمندروں سے گہرے، شہد سے میٹھے اور فولاد سے مضبوط ہیں تو ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں کردو۔ خود ٹھیکہ لگائو باقی سب کچھ ٹھیکے پر دے دو کہ اگر زمین ٹھیکے پر دی جاسکتی ہے تو سرزمین کیوں نہیں؟ معاف کیجئے میرا سر گھوم گیا اس لئے اول فول بک لکھ رہا ہوں۔ ویسے آپس کی بات ہے، معاہدہ کس کھاتے میں کیا تھا کہ معاہدے تو ہمسروں میں ہوتے ہیں۔ تعمیر اور تخریب کے درمیان کیا معاہدہ؟ قانون اور لاقانونیت کے درمیان، آئین اور آئین شکنی کے درمیان کون سا معاہدہ اور اگر کیا ہے تو نبھائو، اسے عارضی حل قرار دے کر خود کو اور ہمیں دھوکہ نہ دو، بے وقوف نہ بنائو۔ جتنی موٹر سائیکلیں، بسیں، گاڑیاں، ٹرک توڑے گئے، محاورتاً اتنے ہی ہاتھ توڑ دو تو ٹھنڈ پڑجائے گی کہ ہماری تو فوک وزڈم کہتی ہے کہ"ڈنڈا پیر ہے وگڑیاں تگڑیاں دا" اور یہ وہ ڈی این اے ہے جو"ڈنڈا سرجری" کے بغیر تبدیل نہیں ہوگا۔ امدادیں، گرانٹیں، قرضے وغیرہ مانگو کہ ہمارا مقدر ہے لیکن خدارا! مشورے نہ مانگو کہ مختلف مٹی مختلف ٹریٹمنٹ مانگتی ہے۔ چینیوں نے بھی کسی سے مشورے نہیں مانگے، اپنی مٹی، ا پنے موسموں، اپنے ماضی، اپنے معاشرے، اپنے مزاجوں کے مطابق حکمت عملی طے کرلو لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہر حکمت عملی کے لئے دو چیزیں درکار ہیں۔ اول:حکمت دوم:عمل اگر یہ دونوں تھوڑی بہت بھی موجود ہیں، تو مشورے مانگنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور یوں بھی قوموں کے عروج و زوال کی "سائنس" کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چند طے شدہ اصول ہیں جنہیں اپنانے سے عروج ملتا ہے اور دفنانے سے قومیں خود دفن ہوجاتی ہیں۔ مکرر ارشاد کہ جو ہوا اس پر اتنا ملال نہیں جتنا اس بات پر کہ "حادثہ" ہوچکنے کے بعد حکومت کس کو بیوقوف بنانے چلی ہے۔