گزشتہ کالم کا خلاصہ یہ رہا کہ اگر کچھ بھی نہ کرو، صرف اسراف کا خاتمہ اور کرپشن میں خاطر خواہ کمی ہی کرلو تو پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے ستے خیراں ہیں۔ کرپشن کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی کو سمجھنے کے لئے صرف یہ ایک خبر ہی کافی ہے کہ قبضہ مافیا کے خلاف گرینڈ آپریشن کے دوران صرف ایک"لیگی، ایم پی اے الیاس چنیوٹی سے4 ارب روپے کی زمین واگزار کرا ئی گئی۔ کیا ن لیگ کے جنم سے پہلے کسی نے کبھی"قبضہ گروپ، ، کی اصطلاح بھی سنی تھی؟ مصیبت یہ کہ غریب آدمی کو اندازہ ہی نہیں، اس کے مفلس اور قلاش وہم گمان تک میں نہیں کہ 4 ارب روپیہ ہوتا کتنا ہے۔ اس رقم میں کتنی ڈسپینسریاں اور اسکول بن سکتے ہیں؟ اس رقم سے کتنی کا ٹیج انڈسٹری فروغ پاکر کتنے بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرسکتی ہے۔ لوگوں کو جہالت کے اندھے کنوئیں میں قید رکھا ہی اس لئے جاتا ہے کہ وہ کبھی جان ہی نہ سکیں کہ4 ارب روپیہ ہوتا کیا ہے اور اس رقم سے کتنے انسانوں کو کتنے دکھوں سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ اسی لئے سارا زور میگا پراجیکٹس پر ہوتا ہے، جہالت کے خاتمہ پر نہیں کہ جہالت کا خاتمہ دراصل ان کا خاتمہ ہے جو معاشرہ میں کرپشن اور اسراف کو جنم دیتے ہیں۔ نواز شریف اینڈ کمپنی اس ملک میں اسراف اور کرپشن کی موجدہے۔ یہ ملک شروع ایسے ہوا کہ بابائے قوم محمد علی جناح خود اپنے ہاتھوں سے گورنر جنرل ہائوس کی بتیاں بجھاتے پھرتے تھے، قائد ملت شہید ہوئے تو بنیان، جرابیں پھٹی ہوئی نکلیں۔ جنرل ضیاء الحق تک اسراف اور کرپشن کنٹرول اور کینڈے میں تھے، پھر یہ سب کچھ نواز شریف اور ن لیگ کے ساتھ ساتھ پرانے وقتوں کے طاعون کی طرح پھیلتا گیا جس کا نتیجہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اس کلچر کو تبدیل کئے بغیر الٹے بھی لٹک جائو تو کوئی تبدیلی، کوئی جوہری تبدیلی ممکن نہیں۔ کبھی کبھی مجھے یہ خیال آتا اور بیحد سکھ، سکون، راحت دیتا ہے کہ شاید"ڈیپ اسٹیٹ، ، نے اس گندگی اور غلاظت سے پاکستان کو پاک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ وہ پراسیس ہے جس کے بارے میں نے ماضی میں کئی بار عرض کیا کہ "اس نظام کو تیزاب سے غسل دینا ہوگا، ،۔ احتساب کا آغاز اور اسراف کا انجام میرے اسی دیرینہ خواب کی تعبیر تو نہیں؟ اگر واقعی ایسا ہوجائے تو مجھ سمیت آپ کو بھی مبارک ہو۔ اور ہاں اس ن لیگی کلچر کے نتیجہ میں اک اور بھیانک رویہ نے جنم لیا اور وہ یہ کہ اے نے بی سے کہا......"تم چور ہو، ،۔ بی نے صفائی دینے کی بجائے پلٹ کر کہا" تم بھی تو چور ہو، ،۔ قوم کا اجتماعی اخلاق اس شرمناک فلسفۂ حیات پر اتفاق کرگیا کہ......"کون نہیں کھاتا جناب! یہ کھاتے ہیں تو کچھ لگاتے بھی تو ہیں، ، یعنی چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے والی بات پر اسی چلّو بھر پانی میں تیرنا شروع کردیا ہم لوگوں نے۔ الزام کے جواب میں الزام کی اس رسم اور لعنت کے خاتمہ کے لئے موجودہ حکومت نے اک فیصلہ کن قدم اٹھایا ہے جو میرے نزدیک اب تک کے تمام حکومتی اقدامات پر بھاری ہے۔ سادگی اپنانے سے لے کر50 لاکھ گھروں کی تعمیر تک، قبضہ مافیا کے خلاف گرینڈ آپریشن و تجاوزات کے خاتمہ سے لے کر اطلس و ریشمی گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے تک سب سے اہم فیصلہ یہ ہے کہ.......گزشتہ 10سال میں لئے گئے 280کھرب غیر ملکی قرضوں کا آڈٹ کیا جائے گا۔ تحقیقات ہوں گی کہ یہ 280کھرب کا قرضہ کہاں گیا؟حکومت کو چاہئے اس آڈٹ کو فاسٹ ٹریک پر ڈالے اور مقامیوں کے علاوہ بین الاقوامی شہرت کے حامل اداروں سے بھی کم سے کم وقت میں فرانزک آڈٹ کروانے کا اہتمام کرے تاکہ وہ لوگ نہ انگلیاں اٹھا سکیں نہ زبانیں ہلا سکیں جو ہر احتسابی قدم کو انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں، جنہیں ہر سوال پر جمہوریت خطرے میں دکھائی دیتی ہے اور جو اپنے ذاتی عدم استحکام کو ملکی استحکام کے ساتھ گڈ مڈ کرکے کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بین ا لاقوامی شہرت کے حامل اداروں کے فرانزک آڈٹ کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ بین الاقوامی برادری کو بھی ٹھنڈ پڑ جائے گی اور ان حالات میں اگر میگا کرپشن پر چین جیسی سزائوں کا فیصلہ بھی کر گزرو تو ہیومن رائٹس کے مامے چوں چاں نہ کرسکیں گے کیونکہ انسانی حقوق صرف انسانوں کے ہوتے ہیں، انسانی روپ میں ان آدم خوروں کے نہیں جو اپنے ہی ہم وطنوں کے لہو پر پلتے اور پنپتے ہیں۔ کیا یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ جن کے ایک معمولی ایم پی اے نے 4ارب روپے کی زمین ہڑپ کر رکھی تھی، اس کے آقائوں نے کیا کچھ نہ کیا ہوگا۔ 280کھرب قرضہ کا فرانزک آڈٹ اک نئی تاریخ کا آغاز ہوسکتا ہے۔