جنہیں سو فیصد سیاسی کالم پڑھنے کا چسکا ہے وہ یہ کالم شروع ہی نہ کریں تو بہتر ہو گا کیونکہ اسےیوں بھی تقریباً میرا ایج گروپ ہی ڈھنگ سے سمجھ سکتا ہے۔ میں کچھ عرصہ سے کافی بیزار بلکہ ’’اوازار‘‘ہوں اور اس کی وجہ ہماری ’’ماڈرن موسیقی ‘‘ ہے۔ موسیقی اگر روح کی غذا ہے تو ایسی زہریلی غذا سے کہیں بہتر ہے روح بھوکی ہی رہے۔ ہمارے ’’بینڈوں‘‘ نے جینوئن موسیقی کا بینڈ بجا کے رکھ دیا ہے۔ بدشکلے، بے سرے، بدحلیے، بدآوازے اور بے رسے لوگوں نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ انہوں نے نورجہاں، سلیم رضا، منیر حسین، مہدی حسن، نصرت فتح علی اور احمد رشدی وغیرہ جیسے خوش آواز سنگرز کے لازوال گیتوں کی ریڑھ مارنی ہے۔ نہلے پہ دہلہ ماشااللہ وہ جعلی ججز ہیں جنہیں موسیقی کی اے بی سی کا بھی علم نہیں ہوتا۔ کمزور انگریزی ملی اردو میں یہ سارے ماڈرن بیجوباورے، تان سین اور باز بہادر ایسے ایسے سطحی، پھیکے اور احمقانہ تبصرے کرتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ کسی کے سر پر ڈرم دے ماروں، کسی کی کنپٹی پر گٹار چلا دوں، کسی کے گلے میں سرمنڈل لٹکا دوں، کس کو پیانو کے نیچے دے دوں، کسی کو مرغا بنا کر اس کی تشریف پر ہارمونیم رکھ دوں۔ دھوبی کا ڈبو نہ گھر کا نہ گھاٹ کاآدھے تیتر آدھے بٹیرپلے نہیں دانے لونڈے چلے بھنانےناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھایہ نہ مشرقی ہیں نہمغربی۔ نہ چوں چوں کا مربہ، ’’ نہ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘اور نہ ہی کاک ٹیل، یہ تو ایسے ہیں جیسے کوئی نہاری میں کسٹرڈ مکس کر دے، پیزے کو سرسوں کے ساگ کے ساتھ کھانا شروع کر دے یا کوبے بیف کو کڑھی پکوڑوں میں ڈال کر کلیم کرے کہ اس نے کوئی نئی ڈش ایجاد کی ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ یہ بیجوباورے بلکہ بجوباورے اورتان سین بلکہ نان سینس عجیب وغریب حلیوں میں عجیب غریب حرکتیں کرتے ہوئے اسے ڈانس بھی سمجھتے ہیں۔ صحیح کہا تھا کسی دل جلے نے کہ یہ ٹانگوں سے گاتے ہیں۔ چڑ مجھے اس بات پر زیادہ چڑھتی ہے کہ یہ نقالوں کے نقال ہیں۔ بھارتیوں نے یہ دھندا اہل مغرب سے متاثر ہو کر شروع کیا، انہوں نے اندھا دھند ان کی نقالی شروع کر دی۔ ان میں اگر کچھ ’’اوریجنل‘‘ ہے تو وہ چیخیں بلکہ ’’چیکاں‘‘ جو یہ اپنی طرف سے گیتوں میں گھسا کر گوروں سے غلامی کا انتقام لیتے ہیں۔ بہت سے ’’اوریجنل‘‘فنکاروں کو لکھنے لکھانے کا شوق بھی ہے۔ کوئی مصرعہ سیدھا نہیں ہوتا، ایک سے بڑھ کر ایک تک بندی کی انتہا کہ آرزو لکھنوی اور ساحر لدھیانوی سے لیکر قتیل شفائی تک کی روحیں لرزتی ہوں گی لیکن کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کہ یہی جمہوریت کا حسن ہے جس کی پہلی شرط ہی اظہار رائے کی آزادی ہے۔ کہاں ہماری نورجہاں، ایران کی مادام گوگوش، مصر کی ام کلثوم اور وہ لولو جس نے گایا تھا" I Only Live Because You LoveMe"یہ لنڈے کے ا یلوس پریسلے، یہ سیکنڈ بلکہ تھرڈ فورتھ ہینڈ فرینک سناترے اور معذور قسم کے مائیکل جیکسن عجیب الخلقت بگڑے بچے ہیں جو نام نہاد ’’بینڈ‘‘ بنا کر خودکو دیومالائی ’’بیٹلز‘‘ کا بھی باپ سمجھتے ہیں۔ جن کو علم نہیں، عمر بھی کم ہو ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ BEATLES، تاریخ کا مقبول ترین راک بینڈ 1960 میں لیور پول سے شروع ہو کر پوری دنیا پر چھا گیا تھا جس کے چار ممبرز تھے John Lennon، Paul Mccartney، George Harrisonاور Richard Starkey یہ موسیقی کی تاریخ کا مقبول اور موثر ترین بینڈ سمجھا جاتا ہے جنہوں نے کئی میوزیکل سٹائلز متعارف کرائے اور انڈین میوزک کو بھی راک سٹائیل میں پیش کیا۔ ٹائم میگزین نے اس بینڈ کے چاروں ممبرز کو 20 ویں صدی کے 100 بااثر ترین افراد میں شامل کیا تھا۔ انہیں بےشمار بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ اپنی ’’پیدائش‘‘ کے دس سال بعد 1970 میں یہ بینڈ ٹوٹ گیا لیکن ٹیلنٹ کی انتہا دیکھیں کہ بیٹلز دی گریٹ کے چاروں پارٹنرز علیحدگی کے بعد انفرادی حیثیت میں کامیاب رہے تو گزارش یہ ہے کہ بینڈ بنائو بھی، بجائو بھی لیکن موسیقی، گائیکی کی مت مارنے، جگالیاں کرنے کی بجائے کچھ اچھا، عمدہ، یادگار، اوریجنل کرنے کی کوشش کرو ورنہ اس کام سے دور رہو جس میں تم وکٹری سٹینڈ تک نہ پہنچ سکو کہ زندگی میں "ALSO RAN"کو کبھی نہ نام نصیب ہوتا ہے نہ مقام اور اس کیلئے تین شرائط ہیں اول محنت، دوم محنت، سوم محنت!