1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسن نثار/
  4. احتساب، احتیاط سے

احتساب، احتیاط سے

چند روز قبل چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جن کے پاس سائیکل تھی ان کے پاس دوبئی میں ٹاورز کہاں سے آئے؟ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سوال پوچھنے میں گستاخی کیسے ہوئی اور عزت نفس کیسے مجروح ہوتی ہے؟چیئرمین نیب کی نیت اور عزم پر کوئی شک نہیں۔ ان کی سربراہی میں بلاشبہ ’’نیب‘‘ نے تاریخی کام کئے، ایسی ایسی مقدس گائے کو احتسابی عمل سے گزارا جو ماضی میں سوچنا بھی محال تھا۔ ’’نیب‘‘ نے کارکردگی کی بنیاد پر نہ صرف ادارے کی ساکھ بحال کی بلکہ اس کی بالادستی کو بھی قائم کیا۔ چیئرمین نیب کا مذکورہ سوال بجا سہی کہ جن کے پاس سائیکل تک نہ تھی ان کے پاس دوبئی میں ٹاور کہاں سے آئے؟سب بجا حضور! احتساب ضرور کیجئے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ احتسابی عمل سےگزرنے کے بعد جب پتہ چلے کہ ملزم بے قصور نکلا تو ایسی صورت میں اس کی بدنامی کا ازالہ کیونکر ممکن ہے؟حقیقت یہ کہ ’’نیب‘‘ کی ماتحت مشینری میں چند کاریگر بیوروکریٹس ادارے کی ساکھ دائو پر لگا کراپنی ذاتی دوستیاں اور دشمنیاں نبھا رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ لوگوں کی عزت نفس توایک طرف ان کے کیریئرز کو بھی تباہ کرنے سے باز نہیں آرہے۔ مثلاً سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور چند سرکاری افسران کے خلاف ایک تشہیری مہم کے اجراء کے لئے ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی ایڈہاک تقرری کو بنیاد بنا کر ایک ریفرنس دائر کیاگیا جس میں وزارت اطلاعات کے ایک اعلیٰ افسر کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ جبکہ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ مذکورہ افسر کو بعض بیوروکریٹس کی خوشنودی اور انا کی تسکین کے لئے بلی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ حیرت ہے کہ اس افسر کو ایک ایسے کیس میں ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے جس میں اس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق ہے نہ ذمہ داری بلکہ شرمناک حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ تمام سرکاری محکموں میں یہ پریکٹس عام ہے کہ وہ اپنے اداروں کی تشہیری مہم کے لئے اپنی مرضی اور صوابدید سے موزوں ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ مذکورہ ایڈورٹائزنگ ایجنسی جاری کردہ اشتہارات کے عوض میڈیا ہائوسز سے 15 فیصد کمیشن، اجرت یا سروس چارجز کی مد میں وصول کرتی ہے۔ ایجنسی کی تقرری کے لئے دو کیٹگریزہوتی ہیں۔ نمبر1۔ مستقل تقرری۔ نمبر2۔ ایڈہاک تقرری یعنی عارضی تقرری۔ رولز اور قاعدے کے مطابق ایجنسی کی ایڈہاک تقرری کوئی بھی محکمہ صرف مخصوص حالات میں کرسکتا ہے اور اس ایڈہاک تقرری کا معقول جواز بھی فراہم کرنا متعلقہ محکمے کی ذمہ داری ہوتی ہے اور تقرری کا مراسلہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کو بھیجا جاتا ہے جسے وہ متعلقہ محکمے کی منظوری کے بعد نوٹیفکیشن جاری کردیتا ہے۔ اس تناظر میں انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کا کردار محض ڈاک خانے کا سا ہوتا ہے۔ 2012ء میں یونیورسل سروس فنڈ کی تشہیری مہم کے لئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اجازت/منظوری کے بعد یونیورسل سروس فنڈ نے ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی ایڈہاک تقرری کر کے وزارت اطلاعات و نشریات کو مراسلہ جاری کردیا جسے سابقہ روایت کے مطابق پرنسپل انفارمیشن کے آفیسر نے روٹین میں پراسیس کروا دیا اور یہ روٹین 1947ء سے جاری ہے۔ دلچسپ اور حیران کن امر یہ ہے کہ ’’نیب‘‘ خود بھی گزشتہ 14 سال سے اپنی ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کی ناصرف ایڈہاک تقرریاں کررہا ہے بلکہ اس کی مدت تقرری میں بوقت ضرورت توسیع بھی کرتا ہے۔ ’’نیب‘‘ کی طرف سے دائر کئے گئے اس ریفرنس کی ناقص اور کمزور تحقیق درج ذیل صورت حال سے واضح ہے۔ گزشتہ چند سالوں کا ہی جائزہ لیں تو سپریم کورٹ آف پاکستان، قومی احتساب بیورو، ایوان صدر سیکرٹریٹ، وزارت قانون و انصاف، وزارت داخلہ، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ، وزارت صحت، وزارت ہائوسنگ، پیمز، نیکٹا، سٹیٹ بینک آف پاکستان، واٹر اینڈ پاور، کیبنٹ ڈویژن، وزارت پٹرولیم، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، نیوکلیئرریگولیشن اتھارٹی، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، اینٹی نارکوٹکس فورس، سینیٹ سیکرٹریٹ، پاکستان نیوی، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، وزارت اطلاعات و نشریات، آرمی پرکیورمنٹ، اوگرا، ڈاکٹر قدیر خان ریسرچ لیبارٹری، انٹیلی جنس بیورو، نادرا، اسلام آباد ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت، اٹامک انرجی کمیشن سمیت تمام دیگر اہم محکموں نے تقریباً 450 مرتبہ 34 ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کی ایڈہاک تقرری کر کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے سہولت حاصل کی۔ مذکورہ بالا صورتحال کے پیش نظر ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی ایڈہاک تقرری کا کسی فرد یا افراد کو ذمہ دار ٹھہرانا نہ صرف تعجب خیز ہے بلکہ احتسابی اداروں کے لئے سوالیہ نشان بھی ہونا چاہئے کہ کہیں کسی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ تو نہیں بنایا جارہا۔ واقفان حال یہ بھی کہتے ہیں کہ مذکورہ افسر کو چیئرمین پیمرا کی اسامی کے لئے میرٹ پر کوالیفائی کرنے کی پاداش میں ذاتی عناد کی آگ کا ایندھن بنایا جارہا ہے۔ انہی لوگوں نے چیئرمین پیمرا کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن میرٹ پر سلیکشن کے باوجود مختلف حربوں سے روکے رکھا اور بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کی مداخلت کے بعد بادل نخواستہ جاری کیا۔ چیئرمین ’’نیب‘‘ کی ناک تلے جانے مانے کاریگربیوروکریٹ سہولت کار بنے ہوئے ہیں اور ہر صورت جو مذکورہ افسر کواس کے موجودہ عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ جو ’’نیب‘‘ کی ساکھ اور نیک نامی کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔ ’’نیب‘‘ کی ساکھ ہر صورت بحال رکھنا قومی ضرورت ہے جسے غیر معمولی احتیاط سے ہی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔