دیانت اور بددیانتی کا تعلق صرف گناہ و ثواب یا جنت دوزخ سے ہی نہیں ہے ورنہ گورا کبھی یہ نہ کہتا کہ ’’دیانتداری بطور پالیسی بھی بہترین ہے‘‘ یعنی عملی زندگی میں بطور سٹرٹیجی بھی دیانتداری ایک اعلیٰ وصف، رویہ اور عمل ہے۔ قائد بھی کہا کرتے تھے کہ ’’پیسہ گیا تو سمجھو کچھ نہیں گیا، صحت گئی تو سمجھو بہت کچھ گنوا دیا اور اگر عزت گئی تو سمجھ لو سب کچھ ہی کھو بیٹھے‘‘۔ دیانت اور عزت لازم و ملزوم اور دونوں میں چولی دامن کا ساتھ بھی ہے۔ عزت یا ساکھ کی حفاظت کیلئے دیانت کی دیوار نہیں فصیل بنانی پڑتی ہے اور زندگی کا سب سے بڑا امتحان ہے Temptation کے سامنے سخت ترین مزاحمت، خصوصاً ان لوگوں کیلئے جن کے پاس اقتدار و اختیار ہو۔ اچھے اور برے، نیک اور بد میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ برائی کا خیال بھلے کو بھی آتا ہے جسے وہ کنٹرول کر لیتا ہے لیکن جس کی سرشت میں ہی برائی ہو وہ Tempt ہو کر برائی پر عمل بھی کر گزرتا ہے اور ایک نقطے کا یہی فرق محرم کو مجرم اور مجرم کو محرم بنا دیتا ہے۔ اہل اقتدار کیلئے تو مزید احتیاط درکار جبکہ لگاتار اقتدار تو اس سے بھی کہیں زیادہ احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ ’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘‘لیکن یہ باریک سی بات شریف برادران کو سمجھ نہیں آئی۔ حتمی فیصلہ تو ’’آخری فیصلہ‘‘ آنے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اندھی طاقت کا تسلسل شریف برادران سے سنبھالا نہیں گیا، صرف یہی کیا کسی سے بھی نہیں سنبھالا جاتا۔ شہباز شریف کو ’’نیب‘‘ لاہور نے صاف پانی کیس میں طلب کر کے آشیانہ ہازنگ سکینڈل میں گرفتار کر لیا تو اس میں کوئی شک شبہ نہیں کہ ’’پانی‘‘ بہت گدلا ہے اور ’’آشیانہ‘‘ پر بھوت پریت کا سایہ اور یہ بھی سچ ہے کہ ابھی تو صاف پانی، میٹرو، اورنج لائن ٹرین اور پاور منصوبوں کی باری بھی آنی ہے کہ کام جاری ہے۔ شہباز شریف جس جوش و جذبہ، غیظ و غضب اور لہجے میں کہا کرتے کہ ’’ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو عوام کا ہاتھ اور میرا گریبان ہوگا‘‘۔ دوسری آپشن یہ دیا کرتے کہ ’’موت کے بعد بھی ثابت ہوجائے تو میری لاش کو پھانسی پر لٹکا دینا‘‘۔ کون سے عوام؟ کن کا ہاتھ اور کس کا گریبان؟کس کی لاش اور کہاں کی پھانسی؟’’یہیں پہ یوم حساب ہوگا‘‘ والی بات صرف شاعری نہیں، اکثر اوقات ایسا ہو بھی جایا کرتا ہے جو ہورہا ہے اور جس سے ہر کسی کو پناہ مانگنی چاہئے۔ ’’نیب‘‘ نے حراست میں لینے کے بعد شہباز شریف کی ذاتی گاڑی واپس بھجوا دی تو مجھے اک بھولے بسرے نغمے کی یاد آئی، ٹانگہ آگیا کچہریوں خالی تے سجناں نوں قید بول گئی‘‘۔ یہاں پہلے کون مانا ہے جو یہ مانیں گے کہ ہمارے سیاستدانوں میں تو ایکٹرسوں جتنی گریس بھی نہیں۔ مجھے وہ غیر ملکی اداکارہ یاد آرہی ہے جس کی ٹیکس چوری پکڑی گئی، سزا بھگتی، پھر مارے شرم کے منظر عام سے غائب ہوگئی، کچھ عرصہ بعد نمودار ہوئی تو اعتراف جرم کرتے ہوئے عوام سے معافی مانگ لی لیکن یہ وہ کلاس ہے کہ رنگے ہاتھوں بھی پکڑے جائیں تو صاف مکر جاتے ہیں، انکار کردیتے ہیں۔ اپنے جرم کو سازش، انتقام اور جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ ’’ثابت‘‘ توآج تک زرداری صاحب کے خلاف بھی کچھ نہیں ہوسکا، تو کیا ان کے دامن نچوڑنے پر فرشتے وضو کریں اور میں ان کے دست مبارک پر بیعت کرلوں؟ ان کے بارے میں تو زبان زد عام ہے کہ ’’کھاتے ہیں تو کچھ لگاتے بھی تو ہیں‘‘ یعنی ’’کھانے‘‘ سے کوئی انکاری نہیں، ان کے ووٹر سپورٹرز بھی اصلاً الزام سے اتفاق ہی کرتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ کہ ’’اگر لگائو گے نہیں تو کھائو گے کہاں سے؟‘‘ طریقہ واردات کا فرق ہے۔ کوئی قبائلی انداز میں اور کوئی کاروباری سٹائل میں کام دکھاتا ہے، عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ حشرات الارض کی گزر بس کیلئے وہی کافی سمجھا جاتا ہے جو کسی مگرمچھ یا باگھ کا بچا کھچا ہوتا ہے۔ شہباز صاحب بھی نوازشریف صاحب کی طرح دیانتدار اور اتنے ہی صاف ستھرے ہوں گے جتنا ن لیگ والے بتاتے ہیں لیکن میرا سوال بہت ہی بنیادی قسم کا ہے کہ اگر ہاتھ اور دامن دونوں صاف ہیں تو فواد حسن فواد وعدہ معاف گواہ کس بات پر بن گئے کہ ایسے چھٹے ہوئے بیوروکریٹ ہوا میں تو اعترافی بیان نہیں دیتے۔ تقریباً ایک ماہ پہلے ’’نیب‘‘ نے شہباز شریف اور فواد حسن فواد کی آمنے سامنے ’’تقریب‘‘ منعقد کی تھی جس میں فواد حسن فواد صاحب نے فرمایا تھا کہ ’’شہباز صاحب! میں نہ جو جو کچھ بھی کیا، آپ ہی کے کہنے پر کیا‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ظاہر ہے یہ سب جو جو کچھ بھی تھا، غیر قانونی تھا جس کا ملبہ فواد حسن فواد نے اپنے سابق آقا پر ڈال دیا تو اس میں کوئی شک کہاں رہ گیا کہ کچھ نہ کچھ تھا ضرور اور ہم جیسے ملکوں کے حکمرانوں کا ’’کچھ نہ کچھ‘‘ بھی کروڑوں نہیں اربوں میں ہوتا ہے۔ ’’نیب‘‘ کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہوں گے لیکن عقل مندوں کیلئے یہی کافی ہے کہ فواد حسن فواد وعدہ معاف گواہ بن گیا کہ بندریا کے بھی پائوں جلنے لگیں تو وہ اپنے بچے پائوں تلے رکھ لیتی ہے، یہ تو بیوروکریٹ تھا۔ ایک یہ فواد ہے، دوسرا وہ جو مزید گرفتاریوں کی خوشخبریاں سنا رہا ہے اور مجھے صرف اس دن سے دلچسپی ہے جب ’’مال مسروقہ‘‘ کی پہلی قسط وصولی جائے گی ۔ ۔ باقی سب افسانے ہیں۔ ہمیں سمجھایا گیا کہ یوم حساب انسان کے اعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ ۔ وعدہ معاف گواہ بھی اعضاء ہی تو ہوتے ہیں۔