لعل شہباز قلند ر کے نام سے شہرت پانے والی بزرگ ہستی کا نام ان کے والد نے سید عثمان رکھا مگر بعد میں انہوں نے لعل شہباز قلندر کے نام سے دنیا میں شہرت پائی۔ آپ کی ولادت آذر بائیجان کے گاؤں مروند میں ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام جعفر صادقؓ سے جاملتا ہے۔ اس طرح ہندوستان میں حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری کی وجہ سے اجمیر کو شناخت حاصل ہوئی ہے اسی طرح سندھ میں سیہون شریف کو حضرت لعل شہباز قلندر کی وجہ سے عظمت حاصل ہے۔
لعل شہباز قلندر سندھ میں مدفون ایک مشہور صوفی بزرگ ہیں۔ ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں ہے۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے۔ حضرت کبیر الدین احمد تقویٰ اور پرہیزگاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ حضرت سید محمد کبیرا لدین احمد شاہ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ آپ کی اہلیہ اس مسئلہ کی وجہ سے اْداس رہنے لگی تھیں۔ سید محمد کبیر الدین ہر شب تہجد کے بعد بارگاہِ ایزدی میں مناجات کرتے اور ایک حالتِ گریہ طاری ہوجاتی۔ ایک شب اْنہوں نے خواب میں حضرت علیؓ کو دیکھا اور عرض کی "یا امیر المومنین! آپ میرے حق میں اللہ تعالیٰ سے اولاد کے لئے دعا کیجئے کہ وہ مجھے فرزند عطا فرمائے"۔
حضرت علیؓ نے تسلی دیتے ہوئے آپ کو ایک فرزند کی بشارت دی۔ کچھ عرصہ بعد570 یا 573ھ بمطابق 1177ء میں سیدکبیرالدین احمد کے گھر ایک فرزند کی ولادت ہوئی جس کا نام "محمد عثمان" رکھا گیا اسے آنے والے زمانے میں آسمانِ ولایت کا شہباز بننا تھا۔ محمد عثمان کی ابتدائی تعلیم آپ کی والدہ ماجدہ کی نگرانی میں ہوئی۔ سات برس کی عمر میں کلام پاک حفظ کرلیا۔ حضرت شیخ منصور کی نگرانی میں علومِ ظاہری کی تکمیل کی۔ عربی اور فارسی زبانوں میں آپ نے بہت کم عرصے میں خاصی مہارت حاصل کرلی۔ آپ کی والدہ صاحبہ آپ کی اوائل عمری میں وفات پاگئیں اور والد کا سایہ بھی والدہ کی وفات کے کچھ عرصہ کے بعد آپ کے سر سے اْٹھ گیا۔
ظاہری علوم کی تحصیل کے بعد آپ کا میلان طریقت و معرفت یعنی روحانی علوم کی طرف ہوا، چنانچہ آپ نے اس تعلیم کے لیے مروند سے سبزوار کا بھی سفر کیا۔ ان دنوں وہاں جلیل القدر شخصیت سید ابراہیم ولی مقیم تھے۔ آپ حضرت امام موسیٰ کاظم کی اولاد سے تھے۔ آپ بڑے عابد و زاہد اور جیّد عالم تھے۔ حضرت لعل شہباز قلندر حضرت ابراہیم ولی کی خدمت میں رہ کر تحصیل علم میں مشغول ہوگئے۔ حضرت ابراہیم ولی نے حضرت لعل شہباز قلندر کی صلاحیتوں کو پرکھ کر جلد ہی مشائخ اور علماء کی ایک محفل میں حضرت لعل شہباز قلندر کو خلافت کی دستار سے نواز دیا۔ غیبی اشارہ ملنے پر اپنے وطن مروند سے عراق تشریف لے گئے اور وہاں سے ایران تشریف لائے۔ حضرت امامِ رضا سے روحانی وقلبی وابستگی کی وجہ سے آپ کے مزار پر انوار پر حاضر ہوئے۔ چندروز تک مراقبے کا سلسلہ جاری رہا، آپ کو باقاعدہ گوشہ نشینی کا حکم ہوا۔ آپ خانقاہِ رضویہ میں مصروفِ عبادت رہے یہ سلسلہ چالیس روز تک جاری رہا اور آخری ایّام میں آپ کو حکم ہوا کہ حج بیت اللہ اور زیارتِ روضہ رسو ل اللہ ﷺ کا شرف حاصل کریں۔
اس طرح آپ امام رضا سے روحانی اجازت ملنے کے بعد حجازِمقدس روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں عراق پہنچنے پر حضرت لعل شہباز قلندر، حضرت عبدالقادر جیلانی کے مزار پر حاضر ہوئے۔ حضرت لعل شہباز قلندر نے بغداد سے حجاز تک راستے میں کئی مقامات مقدسہ کی زیارت کی۔ آپ تین ماہ تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے حج کی ادائیگی کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ مسجد نبویﷺ میں جب روضہ اطہر کے قریب پہنچے تو دیر تک بارگاہِ رسالت میں سرجھکائے سلام پیش کرتے رہے۔ آپ گیارہ ماہ مدینہ منورہ میں مقیم رہے۔ غیبی اشارہ ملنے پر آپ سندھ کی طرف روانہ ہوگئے۔ سفر کے دوران شہباز قلندر مکران کے ساحل پر پہنچے، جب آپ وادی پنج گور میں داخل ہوئے تو ایک سرسبز میدان نے آپ کے قدم پکڑلیے۔ آپ نے یہاں چلہ کشی کی اور اس میدان کو یادگار بنا دیا۔
آپ سیر و سیاحت کرتے ہوئے بو علی قلندر کی خدمت میں پہنچے۔ انھوں نے آپ سے فرمایا کہ ہند میں تین سو قلندر موجود ہیں، بہتر یہ ہے کہ آپ سندھ تشریف لے جائے۔ ان کے مشورہ کے مطابق آپ نے سندھ میں پہنچ کر سیوہستان میں قیام فرمایا۔
اتفاقاً سیوستان میں آکر آپ جس محلے میں مقیم ہوئے، کسی عورتوں کا تھا۔ اس عارف باللہ کے قدوم میمنت لزوم کا پہلا اثر یہ تھا کہ وہاں زناکاری اور فحاشی کا بازار سرد پڑ گیا، نیکی اور پرہیزگاری کی طرف قلوب مائل ہوئے اور زانیہ عورتوں نے آپ کے دستِ حق پر توبہ کی۔
آپ سے بے شمار لوگوں نے روحانی فیض حاصل کیا، مگر چند حضرات کا نام نامی خوب چمکا۔ آپ کے فیض یافتوں میں مندرجہ ذیل شخصیتیں قابل ذکر ہیں۔
عبد اللہ شاہ ابدال، سکندر بودلو، سید علی سرمست، سید عبد الوہاب، سید میر کلاں، سید نادر علی شاہ، سید صلاح الدین، شاہ گودڑو، پیر نپو، لعل موسیٰ۔ حضرت لعل شہباز قلندر نے تبلیغی اور اصلاحی تحریک کو صرف سیہون تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ اپنے ہم عصر احباب "حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی"، "حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر" اور "حضرت سید جلال الدین سرخ بخآری" کے ہمراہ بغرض تبلیغ سندھ کے دور دراز گاؤں اور گوٹھوں میں تشریف لے جا کر لوگوں کو دین کی جانب راغب کیا۔ یہاں تک کے آپ سیہون سے نکل کر "لاہوت"، "ہنگلاج "ہوتے ہوئے " ٹھٹھہ" پہنچے اور پھر وہاں سے" کراچی "کا سفر کیا۔ مقصد "حضرت منگھو پیر" سے ملاقات مقصود تھی، جو کراچی کے شمال، مغرب میں ایک دور دراز گوٹھ میں قیام پزیر تھے۔
آپ کا وصال 651 ھجری بمطابق 1289 عسوی 21 شعبان کو ھوا۔ اس وقت آپ کی عمر 112 سال تھی، وصال والے دن آپ نے طالب علموں کو درس دیا اور مراقبہ میں مشغول ہو گئے۔ پھر اسی کیفیت میں انتقال ہوگیا۔
آپ کو اسی جگہ دفن کر دیا گیا جہاں آپ نے پہلی مرتبہ تکیہ لگایا تھا۔ عرس مبارک آپ کا مزار مبارک مرجع گاہ خاص و عام ہے۔ جہاں روز آپ کے عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ جمعرات والے دن یہ تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ھے۔ جبکہ آپ کا عرس مبارک ہر سال 18 شعبان سے 20 شعبان تک ہوتا ہے جس میں ملک کے کونے کونے سے عقیدت مند ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔
کرامات کا ظہور حضرث لعل شہباز قلندر صاحب ولی اللہ کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے۔ آپ کی ذات مبارکہ سے بہت ساری کرامات منسوب ہیں، جن کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ کتب میں درج ہے۔