میٹر ریڈر آئے دن کسی نہ کسی کا میٹر سلو کر دیتے ہیں یا کسی کا میٹر اس طرح واش کرتے ہیں کہ سکرین سے نمبر غائب ہو جاتے ہیں پھر ان کی پلاننگ سے ٹیم کے چار لوگ آتے نہ میٹر کے مالک کو بلایا جاتا نہ ہی اسے بُلا کے اپنی اس ویڈیو کا حصہ بناتے جو یہ خود کاروائی ڈالنے کے بعد بناتے ہیں۔ یہ وہ وڈیو ہوتی جو اپنا کام مکمل کرنے کے بعد عوام کو چور ثابت کرنے کے لیے بنائی جاتی ہے اور میٹر صارف پر FIR کروا دی جاتی ہے۔
آپ سچے ہو یا نہیں یہ بعد کی بات پہلے آپ کو ایک وکیل کروانا پڑتا ہے پھر عبوری ضمانت کروانی پڑتی ہے اس کے بعد جو جرمانہ آپ کو ڈالا جاتا ہے اس کی ادائگی کے بعد آپ پر FIR ختم ہوتی ہے۔ اس پورے پروسیس میں صرف اور صرف میٹر صارف کا وقت اس کا پیسہ خرچ ہوتا ہے اور FIR کی صورت میں اس کی عزت کو کو مجروح کیا جاتا ہے۔ لیکن عوام اپنے حق کا پورا استعمال کرے اگر آپ پر پرچہ ہو جاتا ہے تو آپ ضرور ان پر ہتک عزت کا داوا کریں۔
ویسے تو اس ملک میں کسی بھی ایسی زیادتی کے خلاف جو عوام کے ساتھ سرکارکی غفلت اور بے توجہی کی بناء پرکی جا رہی ہو، نہ کچھ لکھنے کا فائدہ ہے نہ کسی احتجاج سے حکومت وقت کی صحت پر کچھ فرق پڑتا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی خبروں نے نہ صرف عوام کی چیخیں نکال دی ہیں بلکہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ آج کل جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو پہلا سوال جو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، وہ یہی ہے کہ تمہارا بجلی کا بل کتنا آیا۔
اپنے ملک میں بجلی کی قیمتوں کا موازنہ جب پڑوسی ممالک سے کیا جائے تو ان سے حسد محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کو سہولت دینے کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہیں، اور ہم کس ماحول میں زندہ ہیں۔
بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ دراصل مختلف شعبوں کے افراد کے تجزیے کے مطابق آئی پی پیز (IPPs) ہیں اور جب تک پاکستان میں آئی پی پیز موجود ہیں، کبھی بھی بجلی سستی نہیں ہوسکتی۔ یہ بات ماضی میں بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ آئی پی پیز کو پاکستان میں تمام حکومتوں نے تحفظ دیا ہے۔
ڈالر، پٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے ہر چیز کو مہنگا کردیا ہے۔ ملک بہت عرصے سے ایک ایسے نظام پر چل رہا ہے کہ جس میں لگتا ہے حکومت نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ عوام درد سے بلک رہے ہیں لیکن ان کی کوئی شنوائی ہی نہیں۔ روٹی مہنگی، ادویات مہنگی، علاج مہنگا، تعلیم مہنگی، بل استطاعت سے باہر۔ بے شمار ایسی اشیائے ضروریہ ہیں جو اب عوام کی دسترس سے نکل گئی ہیں جن میں دودھ، گوشت اور پھل وغیرہ شامل ہیں۔ لوگ فاقے کرکے اپنے گھروں کے کرائے بھر رہے ہیں، رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے پوری کردی ہے۔
چند شہروں سے یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ غربت کے ہاتھوں مجبور لوگوں نے مہنگے بجلی کے بلوں کی وجہ سے خودکشی کرلی۔ کل گوجرنوالہ میں ایسا ہی واقع پیش آیا جہاں بجلی کا بل زیادہ آنے پر دو بھائیوں میں جھگڑا ہوا جس کے نتیجے میں بڑے بھائی کے ہاتھوں چھوٹا بھائی قتل ہوگیا۔
آئی ایم ایف کے قرضے حکمران اپنی عیاشیوں کے لیے لیتے ہیں مگر سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیتے ہیں۔ اس بار بل جو اتنے زیادہ آئے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ ان میں فی یونٹ قیمت میں اضافہ تو ہوا ہی ہے لیکن بہت سارے ٹیکسز بھی بجلی کے بلوں میں شامل کیے گئے ہیں، جن میں بجلی پر ڈیوٹی، ٹی وی فیس، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، ایف سی چارج، ٹیرف، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز، کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ چارجرز، فنانشل کاسٹ چارجرز، میٹر رینٹ، ایڈجسٹمنٹ چارجز پر ڈیوٹی، ایکسٹرا چارجز اور متفرق ٹیکسز شامل ہیں۔ جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں ان کو بھی انکم ٹیکس بلوں میں لگ کر آجاتا ہے کیونکہ اکثر لوگ کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں یا میٹر ان کے نام پر نہیں ہوتا۔
عوام بجلی کی انتہائی زیادہ قیمت کے ساتھ ساتھ اتنے سارے ٹیکسز ادا کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ بہت سے لوگ اب یہ سوال کررہے ہیں کہ بجلی کے بل پر انکم ٹیکس اور ٹی وی ٹیکس مضحکہ خیز ہیں۔ جب اور کچھ نہیں ملا تو فاضل ٹیکس اور مزید ٹیکس کے نام پر بھیانک مذاق بھی بل میں شامل کردیا گیا۔ لوگ یہ سب دیکھ کر توبہ توبہ کررہے ہیں۔
حکومت وقت سے اپیل ہے کہ جب تک اس ملک سے کرپشن اور اشرافیہ کی عیاشیاں ختم نہیں ہوگی، کڑا احتساب نہیں ہوگا، مسائل ختم نہیں ہو سکتے۔ عوام کے اوپر اتنے ظلم نہ کریں کہ ان کے ہاتھ بددعائوں کے لیے اٹھنے لگیں۔ ان کو ریلیف دینے کی کچھ تو صورت نکالیں۔