معاشی بدحالی کے ساتھ جہاں ملک میں چوریوں، ڈکیتیوں اور سٹریٹ کرائمز میں واضح اضافہ نظر آتا ہے وہیں جائز طریقے سے پیسہ کمانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کی اولین ترجیح اب بیرونِ ملک منتقلی ہے۔ ادارئہ شماریات کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھی گزشتہ برس کے دوران بیرونِ ملک جانے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
روپے کی گرتی قدر کے پیشِ نظر اب زیادہ تر پاکستانی گھر بیٹھے ڈالر یا کسی اور بیرونی کرنسی میں کمائی کو ترجیح دیتے ہیں اور جو ایسا نہیں کر پاتے وہ زیادہ تر خلیجی یا مغربی ممالک کا رُخ کر جاتے ہیں۔ پاکستانیوں میں دیارِ غیر میں منتقل ہونے کا رجحان نیا نہیں لیکن روز افزوں بگڑتی معاشی صورتحال کے پیشِ نظر اس میں حالیہ کچھ عرصہ کے دوران اضافہ ہوا ہے اور بیرونِ ملک منتقلی کے خواہش مند افراد کی ان مجبوریوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے آج کل کئی فراڈیے بھی مارکیٹ میں آگئے ہیں۔
ویسے امیگریشن ایجنٹوں کے فراڈ کی کہانی تو کافی پرانی ہے، اکثر اوقات ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں شہر میں فلاں بندہ دیارِ غیر کے ویزے کے نام پر شہریوں کے اتنے پیسے لے اُڑا۔ لیکن اب جہاں ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ان فراڈیوں کے طریقہ واردات میں بھی جدت آ چکی ہے۔ سوشل میڈیا نے یہ کام مزید آسان بنا دیا ہے۔
پچھلے دنوں مجھے سوشل میڈیا پر ایک خاتون کا پیغام موصول ہوا، انہوں نے ایک ایجنٹ کو 40لاکھ روپے دے کر کینیڈا کا امیگرینٹ ویزہ لگوایا تھا۔ وہ اُس ویزے سے متعلق خدشات کا شکار تھیں کہ پتا نہیں یہ اصلی ہے یا نہیں۔ اُس ویزے کی اُنہوں نے مجھے جو تصویر بھیجی تھی، اُس سے تو وہ بالکل اصلی لگ رہا تھا اور یہ بتانا ناممکن تھا کہ یہ نقلی ہے۔ لیکن دو چیزوں نے مجھے شک میں ڈالا، ایک تو یہ کہ ویزہ انقرہ، ترکیہ سے جاری کیا گیا تھا اور دوسرا یہ کہ مذکورہ خاتون نے ویزہ کے لئے فنگرپرنٹس نہیں دیے تھے جبکہ کینیڈین ویزہ کے لئے فنگر پرنٹس ایک لازمی شرط ہے۔
میں نے اُنہیں کینیڈین امیگریشن والوں کا نمبر دیا اور کہا کہ وہ وہاں سے معلومات لے لیں۔ وہاں سے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ویزہ بالکل نقلی تھا۔ خاتون کے مطابق جو ایجنٹ تھا وہ خود کو وکیل بھی ظاہر کررہا تھا، سوشل میڈیا پر اُس کے اچھے خاصے فالور بھی تھے جوویزہ لگوانے پردن رات اُس کی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے تھے۔ کئی تو ایسے تھے جو کینیڈا کے تاریخی مقامات پر کھڑے ہو کر بنائی جانے والی تصاویر بھی شکریہ کے ساتھ اس کی وال پر پوسٹ کرتے تھے۔
انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ if it is too good to be true, it isnt. یعنی اگر کوئی چیز ناقابلِ یقین حد تک اچھی لگ رہی ہو تو اُس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ یہی بات بہت سے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ اگر تھوڑی سی کامن سینس استعمال کی جائے اور اس اصول کو اپنی زندگی پر لاگو کیا جائے تو انسان ایسے دھوکوں سے ہوشیار بھی رہتا ہے اور ان سے بچ بھی سکتا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسے گروہوں کی بھرمار ہو چکی ہے جو لوگوں کو ڈالر میں کمائی کیلئے نوکریاں چھوڑ کر کاروبار شروع کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اس تناظر میں کئی کاروباری مشورے بھی دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی بھی سوشل میڈیا پر کافی فالونگ ہے اور ان کیلئے پیسہ بنانا جیسے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لیکن اُن سے عملاً کچھ سیکھنے کیلئے آپ کو اُن کے مہنگے مہنگے کورس کرنا پڑتے ہیں یا کوئی مہنگی ممبر شپ لینا پڑتی ہے اور اُن کے کسی منصوبے میں کوئی انویسٹمنٹ کرنا پڑتی ہے۔
ایسے فراڈیوں کی پہلے بھی کوئی کمی نہیں تھی لیکن اب سوشل میڈیا نے اُن کیلئے کافی آسانی پیدا کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان لوگوں کی فین فالونگ دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ ہاں، یہ بندہ واقعی صحیح کام کر رہا ہے۔ لوگ اس اُمید میں ڈالروں میں اُن کی مہنگی ممبر شپ خریدتے ہیں کہ شاید اُن کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں لیکن ایسے بیشتر ماڈل یا تو سرے سے ہی فراڈ ہوتے ہیں یا اُتنا آسان نہیں ہوتا جتنا سوشل میڈیا کمپین میں دکھایا جاتا ہے۔
عوام خود سوچیں، ایک عقل مند انسان، جسے ڈھیروں پیسہ کمانے کا طریقہ آتا ہے، وہ اُس طریقے سے لا محدود دولت اکٹھی کرنے کے بجائے دن رات ایسے کورس کیوں کروائے گا جن میں دوسرے لوگوں کو پیسہ کمانے کے طریقے سکھائے جائیں۔ حالانکہ ایسے کورس کرنے کے بعد بھی بندہ اُتنے پیسے نہیں کما سکتا جتنے پیسے کمانے کے سبز باغ دکھا کر ایسے کورسز بیچے جاتے ہیں۔
اس حوالے سے کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ ہم دوسروں کے بھلےکیلئے ایسا کرتے ہیں لیکن اگر وہ لوگ واقعی دوسروں کا بھلا چاہتے ہیں تو یہ کام فی سبیل للہ کیوں نہیں کرتے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری جبلت بھی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم ایسے سبز باغ دکھانے والوں پر یقین کریں، کیونکہ یہ یقین اچھے کی اُمید پیدا کرتا ہے اور اُن پر یقین نہ کرنے سے ہم مایوسی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
باہر کے ملکوں میں بھی ایسے بے شمار فراڈیے منظر عام پر آئے تھے اور کچھ اب بھی موجود ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں روز افزوں مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روز گاری، معاشی مواقع کی کمی اور عوام میں تیزی سے پھیلتی مایوسی کی وجہ سے اِن اور ایسے امیگریشن ایجنٹوں کی چاندی ہے۔
جتنا پیسہ ہم ایسے ایجنٹوں کے پیچھے لگا کر برباد کرتے ہیں اُس سے بہتر ہے کہ یہی پیسہ ہم فنی تربیت اور اعلیٰ تعلیم کے حصول پر خرچ کریں، اپنی محنت سے آگے بڑھیں۔ اور کسی بھی امیگریشن اسکیم سے متعلق پہلے خود اچھی طرح تحقیق کر لیں اور ایسے ایجنٹوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔