کیا آپ نے کبھی سوچا کہ جو آئس کریم، بسکٹ نمکو یا کیک آپ کھانے لگے ہیں اس کے اجزاء ترکیبی کیا ہیں اور کیا یہ اجزاء ہماری صحت کے موزوں ہیں یا نقصان دہ۔ کیا کبھی آپ کا دھیان اس طرف گیا کہ سڑک کنارے اگی یہ خود رو بوٹیاں کونسی ہیں، اور بنانے والے نے ان کو یہاں کیوں پیدا کردیا، کیا اس ماحول اس نظام کے لیے ان کی کوئی افادیت ہے یا یوں ہی بیکار ہی ہیں۔
کیا کبھی آپ کے دماغ میں یہ سوچ ابھری کہ پاکستان میں شرح خواندگی سارے خطے سے کم کیوں ہے اور یہ کہ ہمارا معاشی طور پر حال اس قدر برا کیوں ہے جبکہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ملک ہم سے معاشی طور کہیں بہتر ہو رہے ہیں اور ہمارا حال خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے۔ کبھی اس مسئلے کا حل ذہن میں آیا ہو۔
کبھی آپ نے یہ تخیل کیا ہو کہ پاکستان دنیا میں دل کی بیماریوں اور ذیابیطس میں دنیا میں پہلے نمبر پر کیوں ہے۔ کیا اس کی وجہ ہماری کم علمی ہے، ہمارے غیر صحت بخش کھانے ہیں یا ملاوٹ کا بہترین اور منظم نظام۔ کیا کبھی اس ملاوٹ اور جہالت کے گھن چکر سے جان چھڑانے کے متعلق غوروفکر کیا ہو۔
کبھی جو وقت نکال پائے ہوں اور غور کیا ہو کہ ہمارے بچے کو تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ کس معیار کی ہے۔ کیا ہمارے بچے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے قابل ہوجائیں گے۔ اگر نہیں تو یہ تعلیم کیوں دی جارہی ہے اور وہ کون سی تعلیم وتربیت ہو جو ہمارے بچوں کو قابل ہنر مند اور اچھا شہری بنادے اور اس نظام تک کیسے پہنچا جائے اور یہ کس کی ذمہ داری ہے، کون اس سارے سسٹم کو بہتر کرسکتا ہے۔
کیا کبھی آپ کو لگا ہے کہ سرکاری محکموں، ہسپتالوں، تھانوں عدالتوں میں حتی کہ سرکاری سکولوں تک میں ہمارے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ جی بھر کے بے وجہ بے توقیر کیا جاتا ہے، خوامخواہ جسمانی اور ذہنی اذیت دی جاتی ہے، کبھی سوچتے تو ہوں گے کہ یہ کس کرنی کا عذاب ہے جو ہم پر مسلط ہے اور اس سے کیسے چھٹکارا نصیب ہو۔
کبھی کچھ تو سوچتے ہوں گے۔۔ پھر کوئی حل کیوں سمجھ میں نہیں آیا اب تک۔ یا شاید ان موضوعات پر سوچتے ہی نہیں ہوں گے یا شاید سوچتے ہی نہیں ہوں گے۔۔ جو بھی صورت ہے۔۔ آج سے سوچنا شروع کریں۔ سب لوگ۔۔ سب کے سب۔۔ ہر ہر بات پر ہر ہر مسئلے پر سوچیں۔۔ فکر کریں حل تلاش کریں اور ان کو آپس میں زیر بحث لیکر آئیں۔
بہت سے قابل عمل حل مل جائیں گے اس کے بعد بس ذرا سی کوشش کرنا ہوگی بہادری کے ساتھ، جیسا کہ برادر ملک والوں نے کی۔ یاد رہے کہ "نظام فطرت میں صرف خرابیاں خود بخود ظہور پذیر ہوتی ہیں بہتری ہمیشہ لانی پڑتی ہے"۔