بدقسمتی سے سامع کے صرف کان ہی نہیں ہوتے۔۔ اس کے پاس آنکھیں اور تھوڑا بہت دماغ بھی ہوتا ہے، تو جب وہ واعظین کرام کی دلنشیں متاثرکن باتیں سنتا ہے تو انہیں باتوں کی روشنی میں واعظ کے کردار کو بھی دیکھتا ہے، تب اس کو ان زبردست باتوں اور اس کردار میں بہت سا تفاوت نظر آتا ہے۔۔
مثال کے طور پر جب سامع سنتا ہے کہ مبارک ترین ہستیاں روزے سے ہیں افطار کے لیے بس ایک ہی روٹی ہے اور وہ بھی صدا لگانے والے فقیر کو پیش کردی گئی ہے اور خود پانی سے روزہ افطار کرکے شکر ادا کیا گیا ہے تو وہ دل میں تہیہ کرلیتا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کرے گا اللہ کی مخلوق کی بھلائی کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا، مگر اسی تقریب کے آخر میں اس کو پتہ چلتا ہے کہ حضرت واعظ اس خوبصورت واعظ کے عوض بھاری معاوضہ لیکر گئے ہیں تو وہ مخمصے کا شکار ہوجاتا ہے۔۔
اسی طرح وہ واعظ صاحب سے سنتا تو یہ ہے کہ آقا کریم لہولہان ہوکر بھی دعائیں دے رہیں اور دیکھتا کیا ہے کا تقریب کے اختتام پر واعظ صاحب لوگوں سے بڑھے ہوئے ہاتھ بھی جھٹک رہے۔۔ مصافحہ کے بھی روادار نہیں تو وہ مزید کنفیوز ہوجاتا ہے۔
پھر سامع سنتا ہے کہ حضرت واعظ بتارہے ہیں کہ جنابِ ابوبکر صدیق مہنگا کرتا بھی بیچ کر اللہ کی خوشنودی کے لئے دان کردیتے ہیں اور خود ٹاٹ کا کرتا زیب تن کرلیتے ہیں، اور یہ ان کی یہ ادا اللہ کریم کو ایسا بھاتی ہے کہ وہ آسمان پر سب فرشتوں کو ہی ٹاٹ کا پیراہن پہننے کا حکم دیتے ہیں۔۔ تو اس کے آنکھوں میں آنسو دل میں ہزار جذبے پیدا ہوتے ہیں۔۔ تاوقتیکہ اس کو کوئی بتاتا ہے کہ واعظ صاحب خود تو کسٹم ڈیزائن مہنگے ترین لباس پہنتے ہیں۔ اب اس کا دل بجھ جاتا ہے۔۔ پھر ایسا بار بار ہوتا ہے صدیوں تک ہوتا رہتا ہے، اب سامع واعظ کی باتوں کا اثر نہیں لیتا وہ جانتا ہے کہ یہ محض لفاظی ہے۔۔
واعظ بھی کایاں ہے وہ جان گیا ہے کہ اس کی قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے اس کی باتوں کا اثر جاتا رہا ہے۔۔ لیکن وہ مجبور ہے اس کو بہرحال سامع کو۔ متاثر کرنا ہے۔۔ اگر سامع متاثر نہیں ہوگا تو اس کی ویلیو۔۔ اس کا مشاہرہ کم ہوجائے گا، اب وہ مافوق الفطرت داستان لیکر آتا ہے۔۔ وہ بتاتا ہے کہ اس کا مرشد ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔۔ وہ سناتا ہے کہ پیر صاحب بچپن میں کھیلتے ہوئے اتنا زور سے اچھلے کہ چاند ستاروں تک جاپہنچے۔۔
اس کو کہنا پڑتا ہے کہ متبرک شہید جسموں سے آوازیں آتی تھیں احکام و ہدایت جاری ہوتی تھی، اس کو تخلیق کرنا پڑتا ہے پیر صاحب دیوار پر بیٹھے اور وہ گھوڑوں سے تیز چل پڑی۔ مقابلے کی دوڑ میں واعظ کا دھیان پلٹ کر اس طرف کبھی نہیں گیا کہ قول و فعل میں تضاد نہیں ہوگا تو بات سنی بھی جائے گی اس میں اثر بھی ہوگا۔۔ بس اس کو اب ہر قیمت پر توجہ چاہیے۔۔ اپنی قیمت بڑھانے کے لئے۔۔ مافوق الفطرت تخلیقات کا سلسلہ نہیں رکنے والا۔